ن لیگ میں بغاوت ، آگے کیا ہوگا؟

Last Updated On 17 August,2018 09:03 am

لاہور: ( سلمان غنی) پنجاب میں سپیکر شپ پر چوہدری پرویز الٰہی کی کامیابی اور ووٹنگ میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے ووٹوں کے علاوہ تقریباً ایک درجن ن لیگ کے اراکین کے ووٹوں سے کامیابی نے صوبہ کی اپوزیشن جماعت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ اب وفاق سمیت صوبہ میں بھی تمام آئینی عہدے بظاہر ن لیگ سے روٹھ گئے ہیں۔ لہٰذا منتخب ایوانوں کے اندر جس تناؤ کا اظہار کچھ ماہ بعد شروع ہونا تھا وہ اب اسمبلیوں کے قیام سے شروع ہو گیا ہے جو نظام کے تسلسل کیلئے اچھا نہیں۔ کیا چوہدری پرویز الٰہی کو اضافی ووٹ رضاکارانہ طور پر حاصل ہوئے ہیں یا یہ بھی کسی غیر سیاسی عمل کے نتیجے میں ہوا ؟ بہر حال انہیں جیت تو جانا تھا مگر اس سے بدمزگی کی ایسی ابتدا ہوگئی کہ اب پنجاب میں آئے روز نئے طوفانوں اور محاذ آرائی کا میدان لگتا رہے گا۔

تقریباً ایک درجن اراکین اسمبلی کون ہیں ؟ انہیں کس قوت نے اس عمل پر بہکایا ؟ اور کہیں یہ ن لیگ کے اندر فارورڈ بلاک کی ابتدا تو نہیں ؟ اس سارے عمل کے نئی حکومتوں پر خصوصاً جمہوری عمل کے تسلسل پر کیا اثرات ہونگے ؟ اب پیپلز پارٹی کا بھی مرکز اور صوبہ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کس امر کا شاخسانہ ہے ؟ کیا متحدہ اپوزیشن کی تشکیل ہوا میں تحلیل ہو گئی ؟ یہ سب ایک دلچسپ صورتحال کی نشاندہی ہے۔ حکومت سازی کا عمل اپنے آخری مرحلے کو پہنچ چکا ہے۔ جس تیزی سے اپوزیشن کا اتحاد بنتا نظر آ رہا تھا وہ سیاسی قوتوں کے تضادات اور شخصی ترجیحات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اپوزیشن کے اتحاد کا تتر بتر ہونا، قومی اسمبلی کے فلور پر واضح ہو چکا تھا۔ یہ وہی ماضی والا کردار تھا جسے پیپلز پارٹی نے چنا، جب تحریک انصاف اسمبلی سے واک آؤٹ کرتی تھی تو خورشید شاہ جمہوری عمل اور پارلیمان کے تسلسل میں ایاز صادق کے ہمنوا ہوتے تھے۔ نواز شریف کے ٹرائل کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور حیران کن طور پر ایم ایم اے بھی ن لیگ سے گریزاں اور آنکھیں چراتی نظر آئی تھیں۔ اس صورتحال کا لا محالہ اثر کل پنجاب اسمبلی کے فلور پر بھی نظر آیا۔ مگر پنجاب میں صورتحال کا گلہ ن لیگ کو دوسروں سے کرنے کی بجائے اپنی صفوں میں صفائی اور تحقیقات کا تقاضا کر رہا ہے۔

یہ صورتحال قومی ذرائع ابلاغ اور خود انہی تجزیوں میں کئی دفعہ بتائی گئی تھی کہ پرویز الٰہی ایک مضبوط ساکھ اور موثر شخصیت کے مالک ہیں اور چوہدری برادران رابطوں میں رہتے ہیں اور متوقع تھا کہ وہ اپنے ہدف سے زائد ووٹوں کا حصول کرینگے۔ اس میں ق لیگ کامیاب رہی۔ ڈپٹی سپیکر دوست محمد نے 187 ووٹ حاصل کئے ہیں یہ صورتحال بذات خود بتا رہی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے سیاسی قد کاٹھ کی بنیاد پر 15 اراکین اسمبلی سے خبر سگالی کے ووٹ حاصل کئے۔ لہٰذا اس کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کی صفوں میں پڑنے والی دراڑ ایک مستقل دھچکا نہیں ہوگی۔ مگر پھر بھی قانون سازی اور دیگر معاملات پر چوہدری پرویز الٰہی اپنا کردار ضرور ادا کرینگے اور ن لیگ پر اثر انداز ہوتے رہینگے۔ اب ن لیگ کیلئے حقیقی خطرہ شروع ہو چکا ہے۔ اس نے واضح طور پر اس صورتحال کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے کہ درجن سے زائد ووٹ ن لیگی صفوں سے کیسے پرویز الٰہی نے حاصل کر لئے؟۔

ن لیگ کا پنجاب میں سورج ڈوبتا تو نظر آ رہا تھا مگر یہ پارٹی کی وحدت اور وجود پر حملہ ہے۔ کیا یہ آگے جا کر کوئی بڑی اور سنگین بغاوت تو نہیں بن جائیگی جسے تجزیہ نگار ن لیگ میں فارورڈ بلاک کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اچانک ہو گیا ؟ ایسا نہیں ہے ماضی قریب میں ن لیگ پنجاب اسمبلی سے غیر متوقع طور پر سینیٹ کی ایک سیٹ زبیر گل کیلئے ہار گئی تھی، کیا اس پر توجہ دی گئی تھی ؟ اگر تحقیقات ہوئی تھیں تو ان کا نتیجہ کیا نکلا تھا ؟ بہر حال اس نئی بغاوت کا اشارہ کچھ دن پہلے جہانگیر خان ترین نے پرویز الٰہی کے ساتھ بیٹھ کر ایک میڈیا ٹاک میں دیا تھا کہ ن لیگ کے کچھ جاگے ہوئے ضمیر ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور نتائج توقعات سے زائد ہونگے۔ مگر ن لیگ کی قیادت نے محض اپیلیں کیں اور ہارس ٹریڈنگ کرنے کی دہائیاں دیتے رہے اور عملاً پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ یہ ساری صورتحال تقاضا کر رہی ہے کہ اب پنجاب میں اپوزیشن لیڈر ایسا ہو جو ن لیگ کی ساری صوبائی پارلیمانی پارٹی کو ساتھ لیکر چلے اور فعال ایسا ہو کہ ن لیگ کو پنجاب کے ایوان میں بھرپور مقابلہ کرنے پر ابھارتا رہے۔ اب ن لیگ متحمل نہیں کہ ایک نو آموز ایم پی اے کو مسندِ اپوزیشن پر بٹھا دے ۔ اب صورتحال لیگی قیادت سے انتہائی فہم و فراست کا تقاضا کر رہی ہے ۔ اب نہ تو پیپلز پارٹی وفاق میں ساتھ ہے اور نہ ہی صوبہ میں وہ حمایتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی وجہ سے وفاق میں تو اپوزیشن کافی غیر موثر ہو چکی ہے مگر ا صل میدان ن لیگ کو صوبہ میں لگائے رکھنا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اب اصلاحِ احوال کو پس پشت ڈال کر اقتدار کی مثالی سیاست شروع کر دی ہے ۔ سینیٹ سے قومی اسمبلی تک پیپلز پارٹی کی اصولی سیاست کہیں نہ کہیں وصولی کی سیاست بن چکی ہے۔ دوسری طرف احتساب کی جو چکی صوبہ سندھ میں چل رہی ہے لگتا یہی ہے کہ اس میں زرداری کے مفادات بھی پِس رہے ہیں۔ ن لیگ کی سیاست وفاق میں پیپلز پارٹی سے زخم خوردہ رہے گی اور صوبہ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی دوبارہ ان کیلئے ڈراؤنا خواب بن سکتے ہیں۔ ن لیگ نے اس صورتحال سے بچنا ہے تو ٹھنڈی میٹھی اپوزیشن کی بجائے عوامی مسائل اجاگر کرنے کی سیاست کرنی ہوگی۔ صوبہ میں محاذ آرائی کی سیاست اس کا قومی کردار زندہ رکھے گی۔ اگر ن لیگ نے انتظار کیا کہ محض عمران خان کی حکومت کی ناکامی میں اس کے امکانات ہونگے تو پھر یہ دفاعی پوزیشن ہو گی جس میں ن لیگ اور شہباز شریف کا بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا اور اس کے اثرات پارٹی کی وحدت اور سیاست پر ہونگے ۔