اپوزیشن کے احتجاج کا جواز یا منظم ایجنڈا کا شاخسانہ؟

Last Updated On 08 August,2018 10:27 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) اپوزیشن کی جانب سے قومی انتخابی عمل میں دھاندلی اور انتخابی نتائج میں تاخیر کی شکایات کے خلاف احتجاج کے پہلے مرحلہ میں آج الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج ہونے جا رہا ہے۔ احتجاج کے اس عمل میں اپوزیشن میں شامل جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن، ایم ایم اے کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کو یہاں پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اسلام آباد انتظامیہ نے مظاہرین کو الیکشن کمیشن تک جانے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن ریڈ زون میں داخلہ ممنوع قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ احتجاجی عمل کے حوالے سے دیکھنا پڑے گا کہ احتجاج کی ٹائمنگ درست ہے؟ اس کا جواز موجود ہے؟ یہ محض دھاندلی کو ایشو بنانے کا سوال ہے یا کسی منظم ایجنڈا کا شاخسانہ ہے؟ احتجاج کا یہ عمل ملکی سطح پر کوئی اثرات پیدا کر سکے گا اور آنے والی حکومت اس عمل سے کیسے نمٹے گی؟

جہاں تک انتخابی عمل میں دھاندلی کی شکایات کا سوال ہے تو انتخابی عمل اور خصوصاً انتخابی مہم کے حوالے سے تو دو آرا ہو سکتی ہیں کہ کس کو لیول پلینگ فیلڈ ملی یا نہیں لیکن پولنگ ڈے کے حوالے سے ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس دن دھاندلی کی شکایات نہ ہونے کے برابر تھیں اور اس کی ایک بڑی وجہ پولنگ سٹیشنوں پر مسلح افواج کی تعیناتی کا عمل بھی تھا جس کی بنا پر کسی کو انتخابات کی آزادانہ اور منصفانہ حیثیت پر اثر انداز ہونے کی جرأت نہ ہوئی اور پولنگ کے عمل کی تکمیل کے بعد انتخابی نتائج کے اعلانات اور بعد ازاں رات گئے آر ٹی ایس میں ہونے والی خرابی اور انتخابی نتائج میں گھنٹوں کی تاخیر کے عمل نے بہت سارے خدشات ، خطرات اور تحفظات پیدا کئے۔

اپوزیشن جماعتوں کو جنہیں پہلے سے ہی تحفظات تھے الیکشن کمیشن کی نا اہلی کے اس عمل نے نہ صرف اس رات انتخابی عمل مسترد کرنے کا جواز فراہم کیا بلکہ ملک میں احتجاج کی بنیاد فراہم کر دی۔ دوسری جانب خود تحریک انصاف کے ذمہ داران بھی اس سسٹم کو ہدف بناتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے تحفظات کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ لیکن اگر انتخابی نتائج کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن، اس کے سسٹم میں ہونے والی خرابی کو کسی منظم دھاندلی یا اس کے نتیجہ میں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کا باعث قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ ان انتخابی نتائج کی بنا پر عمران خان اور انکی جماعت کو پذیرائی ملی ہے لہٰذا اپوزیشن جماعتیں اسے ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں۔

چونکہ ماضی میں خود عمران خان مبینہ دھاندلی کو نشانہ بنا کر منتخب حکومت کیلئے مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے ہیں لہٰذا اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اپنی حکومت کے آغاز پر ہی عمران خان کی حکومت کو ٹیک آف نہ کرنے دیا جائے لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہوں گی؟ یہ تو حالات، واقعات اور انتخابی نتائج کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ حکومت سازی کے عمل کے دوران احتجاجی عمل کو زیادہ پذیرائی نہیں مل سکے گی کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو بنیاد بنا کر عمران خان کی حکومت کو متاثر کیا جانا مقصود ہے اور یہی حالات خود عمران خان اور ان کی جماعت کو در پیش آئے تھے۔

جب 2013 کے انتخابی نتائج کے بعد انہوں نے دھاندلی کا واویلا کیا تو لوگوں نے اس پر توجہ نہ دی۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ منتخب حکومت کے قیام سے پہلے اپوزیشن کی تشکیل کا عمل تحریک انصاف کی حکومت کیلئے خطرے کا سگنل ضرور ہے اور اپوزیشن میں پیپلز پارٹی جیسی جماعت جسے سندھ میں حکومت کا موقع مل رہا ہے وہ کبھی نہ چاہے گی کہ اپوزیشن کی جانب سے کسی احتجاجی عمل کے نتیجہ میں ملک میں جاری جمہوری سسٹم کو کوئی نقصان پہنچے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے کسی احتجاج یا تحریک میں پیپلز پارٹی کا کردار روایتی تو ہو سکتا ہے مگر نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔

جہاں تک تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے کی بات ہے تو تحریک انصاف ایک جمہوری حکومت کی حیثیت سے احتجاج کے عمل کو ٹارگٹ تو نہیں کر پائے گی لیکن اس سے نمٹنے کیلئے انہیں ملک میں گورننس بہتر کرنا ہو گا جن نعروں اور وعدوں پر وہ اقتدار میں آئی ہے اس سمت پیش رفت کرنا پڑے گی تا کہ مسائل زدہ عوام کسی احتجاج یا احتجاجی تحریک کا حصہ نہ بنیں، مکمل سیاسی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ اپوزیشن اتحاد بننے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے جب حکومتیں اپنے مینڈیٹ کے مطابق ڈلیور نہیں کر پاتیں۔ لوگوں کو ریلیف نہیں ملتا۔ مہنگائی، بے روزگاری کا رجحان بڑھتا ہے یا بد امنی کی صورتحال طاری ہوتی ہے تو عوام کے اندر غم و غصہ اور تشویش کے عمل کو اپوزیشن جماعتیں کیش کروانے کیلئے میدان میں اترتی ہیں اور عوام ان کی آواز سننے کی کوشش کرتے ہیں۔

لہٰذا اس مرحلہ پر جب قومی انتخابات ہوئے ہیں اور نئی حکومت ابھی وجود میں ہی نہیں آئی حکومت سازی کا عمل شروع ہوا ہے تو نہیں کہا جا سکتا کہ عوام ایسی کسی تحریک یا احتجاج کا حصہ بنیں گے اور خصوصاً جن ایشوز پر احتجاج کا آغاز کیا جا رہا ہے اس پر عوامی سطح پر کوئی رد عمل اور تحریک موجود نہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی اور خصوصاً مسلم لیگ ن کی موجودہ قیادت کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہاں ایسی غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال طاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں جس کے نتیجہ میں نئی بننے والی حکومت کیلئے کوئی خطرہ ہو.

البتہ یہ بات تحریک انصاف کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کی حکومت کے امکانات کے ساتھ ہی اس کیلئے خطرات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور آنے والے وقت میں سیاسی جماعتیں عمران خان اور ان کی حکومت کیلئے مسائل کھڑے کر سکتی ہیں لیکن اس کا سد باب صرف اس صورت میں ممکن ہو گا کہ تحریک انصاف کے حکومت مخالفین سے الجھنے کے بجائے طرز حکومت کی تبدیلی عوام کیلئے ریلیف گورننس کی فراہمی، معیشت کی بحالی، زرعی ترقی، قومی سلامتی کے تحفظ اور سماجی سہولتوں میں انقلاب برپا کر سکے اور ایسی صورت میں کسی قسم کے بحران یا احتجاج کو عوامی سطح پر پذیرائی نہیں مل سکے گی۔

لیکن اگر عمران خان اور ان کی حکومت نے عوام کو ڈیلیور کرنے کے بجائے اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے کا عمل شروع کر لیا تو پھر اسے اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے نوازشریف کی حکومت دو چار رہی اور یہ امر قومی بد قسمتی کا باعث ہو گا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے 814 امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ جس میں عمران خان کے 2 قومی اسمبلی کے حلقوں سمیت 9 قومی اور 15 صوبائی حلقوں کے نتائج روک دیئے گئے۔ جس سے ایک گومگو کی صورتحال طاری ہو گئی ہے۔

سیاسی جماعتوں سمیت اب اس پر سیاسی رہنما بھی تحفظات کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسا ہونے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ کیا الیکشن کمیشن اپنی اہلیت کھو چکا ہے؟ آر ٹی ایس کی ناکامی کے بعد اب نتائج روکنے تک الیکشن کمیشن پر اعتماد کیوں ختم ہوتا جا رہا ہے؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو اس وقت سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات اب تک الیکشن کمیشن کو نتائج کے حوالے سے حتمی طور پر اپنی کارکردگی سے دے دینے چاہئیں تھے۔ مگر بد قسمتی سے الیکشن کمیشن بری طرح سے اہلیت کے بحران کا شکار نظر آ رہا ہے۔ خواہ جیتنے والے ہوں یا ہارنے والے سب نے الیکشن کمیشن کو مشقِ ستم بنا رکھا ہے۔

سیاسی طور پر پوری قوم بدترین تقسیم کا شکار ہو گئی ہے۔ ایسے میں بڑے قومی اداروں خصوصاً الیکشن کمیشن نے شفاف الیکشن کے عمل اور نتائج پر قوم کو ایک غیر جانبدارانہ عمل پر اکٹھا کرنا تھا مگر نتائج کے بعد قوم مزید تقسیم ہے۔ محاذ آرائی الیکشن کی رات سے شروع ہو چکی ہے اور اس میں سب سے بڑا فریق خود الیکشن کمیشن بن چکا ہے۔ آر ٹی ایس کے تنازع پر جدید ٹیکنالوجی کی ذرا سی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی یقین کرنے کو تیار نہیں اور رہی سہی کسر دوبارہ گنتی کے عمل نے پوری کر دی ہے۔ ایک غیر جانبدار پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن اس تنازع کو سلجھا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنی اخلاقی سطح پر آگے بڑھ کر اس کا اعلان کریگی یا پھر اپوزیشن کا دباؤ اسے کمیشن بنانے پر مجبور کر دے گا۔