متحدہ اپوزیشن کا ایجنڈا کیا ہے؟

Last Updated On 03 August,2018 10:13 am

لاہور: ( تجزیہ: سلمان غنی ) متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں جانے اور ایوان میں تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے اور احتجاجی سلسلہ کو منظم کرنے کیلئے 16 رکنی ایکشن کمیٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ وزیراعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کیلئے اپنے مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اپوزیشن کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ انتخابی عمل اور نتائج میں مداخلت اور دھاندلی کو ہتھیار بناتے ہوئے پارلیمنٹ میں حکومت کا محاسبہ کرے گی لہٰذا منتخب حکومت کے قیام سے پہلے متحدہ اپوزیشن کی تشکیل یہ ظاہر کر رہی ہے کہ آنے والے حالات میں حکومت کیلئے سیاسی محاذ آرائی ہونے جا رہی ہے۔

مشترکہ اپوزیشن کے حوصلے اس لئے بلند ہیں کہ وہ اپوزیشن کے کردار کے ساتھ حکومت سازی کے ابتدائی مرحلہ میں حکومت بنانے کی بات بھی کر رہی ہے، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر کس نے ملک کی اہم جماعتوں کو ساتھ لا کھڑا کیا۔ متحدہ اپوزیشن کا کردار کیا نمبرز گیم تک محدود ہے یا یہ اتحاد آنے والے حالات میں قومی ایشوز پر بھی قائم رہے گا اور کیا نئی منتخب حکومت اسکا مقابلہ کر پائے گی؟

انتخابات کے نتائج کے بعد واضح طور پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت میں ڈٹ کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ بحران اور ہار نے یقیناً اپوزیشن جماعتوں کو نہایت جلدی میں اکٹھے ہونے اور سب سے بڑھ کر عمران خان کی مخالفت میں اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر بظاہر اکٹھا کر دیا۔ ان جماعتوں نے اس تمام بحرانوں سے نمٹنے یا دوسرے الفاظ میں ‘‘بحران کو بڑھانے ’’ کیلئے ایکشن کمیٹی بنا دی ہے مگر اب تک کی سب سے بہتر خبر یہ ہے کہ یہ تمام جماعتیں قومی اسمبلی کا رخ کر رہی ہیں اور قائد ایوان اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی لڑیں گی اور پھر اس کے بعد طبل جنگ بج جائے گا۔

پارلیمانی تاریخ کی مضبوط ترین اپوزیشن اور بظاہر ایک کمزور اور نا تجربہ کار حکومت ہو گی۔ اپوزیشن کی کامیابی کا تمام تر انحصار اس کے اتحاد پر ہوگا جبکہ حکومت کی تمام تر کامیابی اور بحران سے نمٹنے کی صلاحیت اور اس کا بوجھ عمران خان پر پڑے گا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی حکومت اور اس کی کارکردگی سے پہلے اپنی ٹیم تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہیں؟ یقیناً وہ بہت سی الجھنوں کا شکار ہیں۔ مضطرب ہیں اور خاصے حد تک پریشان بھی کیونکہ اس جماعت کے پاس کامیابی تو ہے مگر چہرے اور بحران سے دو چار ملک کو چلانے کا تجربہ نہیں۔ ابھی تک پنجاب میں وزیراعلیٰ کا نام فائنل نہیں ہوا ۔ خیبرپختونخوا میں بھی محاذ آرائی شروع ہے ۔ یہ وہ صورتحال ہے جو عمران خان کی کامیابی کو پریشانی میں بدل رہی ہے اور اصل پریشانی کامیاب پارٹی میں اتحاد اور یکسوئی کی شدید کمی ہے۔

تجربہ پہلے نہیں ہے اور اس پر ستم یہ ہے کہ کوئی بڑا نام بھی عمران خان کے بعد نہیں جس پر پارٹی کا اتفاق اور قومی سیاسی سطح پر اس کا احترام ہو۔ لہٰذا اب عمران خود پرفارم کریں گے تو ‘‘مین آف دی میچ’’ بنیں گے وگرنہ ان کے ساتھ پارٹی کو بھی سخت خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

متحدہ اپوزیشن کے قیام کو دیکھا جائے تو واضح ہے کہ اسے اپنے سے کمتر سیاسی حریف سے شکست کا مزہ چکھنا پڑ رہا ہے اس لیے اس کی بے چینی سمجھ آ رہی ہے۔ یہ جماعتیں پولنگ کے عمل پر تو براہ راست سوال نہیں اٹھا رہیں ان کا سارا زور نتائج کے حوالے سے ہے۔ یقینا ًیہ ایک مناسب مطالبہ ہے کیونکہ آزاد ذرائع ابلاغ اور آزاد مبصرین نے بھی اس مسئلہ کو اجاگر کیا ہے۔

قوم پوری رات انتظار کی سولی پر لٹکتی رہی آخرِ شب سیکرٹری الیکشن کمیشن نے آ کر آر ٹی ایس کی ناکامی کا اعتراف کیا جس سے ان حلقوں کے نتائج پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا جہاں تحریک انصاف بہت مضبوط پوزیشن پر کھڑی تھی اب اگر تحریک انصاف کو ملنے والے مینڈیٹ پر سوالیہ نشان ہیں تو عمران خان جس اخلاقی سطح کا ابلاغ کرتے رہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ پارلیمان میں حلف اٹھانے کے بعد خود نتائج کی شفافیت کے حوالے سے احکامات جاری کریں اور تحقیقات کا حکم دیں تا کہ سیاسی بحران کو ابتدا ہی میں ختم کیا جا سکے۔ مبادا کہیں 2013 والا معاملہ دوبارہ نہ پیش آ جائے۔

نوازشریف بھی اپنے دور اقتدار میں حد سے زیادہ پر اعتماد تھے اور آخر میں انہیں یہ اعتماد لے ڈوبا۔ لہٰذا سیاسی اتفاق رائے کی طرف قدم عمران خان نے بڑھانا ہے کیونکہ بحران صرف حکومت کا نقصان کرتا ہے۔ حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ تحریک چلانے کے بجائے اس معاملہ کے جمہوری حل اور سد باب کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ اپوزیشن کو آر ٹی ایس کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن تجویز کرنے اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھ کر اسے قبول کر کے تحقیقات کا حکم دینا چاہئے۔