لاہور: (روزنامہ دنیا) قیام پاکستان سے قبل کراچی کا شہر آج سے بالکل مختلف نظر آتا تھا۔ نہ یہاں موٹریں تھیں، نہ بسیں، نہ سینما، نہ بڑے بڑے ہوٹل۔ آبادی بہت کم تھی۔ پھر بھی کراچی خاصا صاف ستھرا شہر تھا۔ کسی اور لحاظ سے نہ سہی، صفائی کے لحاظ سے ہندوستان بھر کے شہروں میں ممتاز نظر آتا تھا۔ اس کے علاوہ تجارت کے اعتبار سے بھی اس شہر کو خاصی اہمیت حاصل تھی۔
اس وقت شہر کی تجارت پر زیادہ تر سندھی ہندوئوں کا قبضہ تھا۔ لیکن بہت کچھی اور خوجہ سوداگر بھی یہاں آباد ہو گئے تھے۔ اور ان کا کاروبار ترقی پر تھا۔ انہی لوگوں میں جناح پونجا بھی تھے۔ جو خوجہ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور کراچی کے خوشحال تاجروں میں سمجھے جاتے تھے۔ ان کا اصل وطن تو راج کوٹ، کاٹھیاوار تھا لیکن کراچی آئے ہوئے انہیں خاصی مدت ہو گئی تھی۔ اور اب راج کوٹ کبھی کبھار ہی جانا ہوتا تھا۔
جناح پونجا نیونہم روڈ کی ایک سہ منزلہ عمارت میں رہتے تھے۔ یہ عمارت اب بھی موجود ہے۔ اور وزیر منشن کہلاتی ہے۔ اس زمانے میں بھی وزیر مینشن میں کئی کنبے آباد تھے جناح پونجا اس مکان کی پہلی منزل کے دو کمروں میں رہتے تھے۔ عمارت کے دوسرے حصوں میں جو لوگ تھے ان میں سے بعض ان کی جان پہچان کے تھے اور بعض ان کی طرح خوجہ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ 25 دسمبر 1876ء کو جناح پونجا کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ جس کا نام باپ نے محمد علی رکھا۔
محمد علی جناحؒ پانچ برس کے ہوئے تو انہیں ایک مکتب میں داخل کیا گیا۔ جہاں دینی تعلیم دی جاتی تھی۔ انہوں نے پہلے باقاعدہ بغدادی پڑھا۔ پھر اس زمانے کے عام دستور کے مطابق انہیں ناظرہ پڑھایا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے حکایات لطیف اور اردو کی ایک آدھ کتاب پڑھی۔ ان دنوں سندھ ابھی الگ صوبہ نہیں بنا تھا بلکہ بمبئی میں شامل تھا۔ اس لیے بمبئی سے کراچی کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس لیے جناح پونجا نے مناسب سمجھا کہ محمد علیؒ کو بمبئی بھیج دیا جائے۔
لیکن انہیں بمبئی کے ایک سکول میں داخل ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ان کی والدہ سکینہ بیگم کے کہنے پر ان کے والد نے انہیں پھر کراچی بلوا لیا۔ یہاں وہ پہلے مدرسہ ہائی سکول میں داخل ہوئے۔ پھر مشن سکول میں بھیج دیے گئے۔ چنانچہ یہیں سے انہوں نے میٹریکولیشن کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت محمد علی جناحؒ کی عمر سولہ برس تھی۔ جناح پونجا کئی دن تک یہ طے نہ کر سکے کہ محمد علیؒ کو مزید تعلیم کے لیے کالج میں بھجوا دیں یا کاروبار میں شریک کریں۔
انہی دنوں ان کی ملاقات اپنے ایک پرانے دوست سر فریڈرک کراف سے ہوئی۔ محمد علیؒ کا ذکر آیا تو سر فریڈرک کہنے لگے۔ لڑکے کو بیرسٹری کی تعلیم کے لیے انگلستان کیوں نہیں بھجوا دیتے۔ جناح پونجا کو یہ بات بہت پسند آئی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی اور کنبہ کے دوسرے لوگوں سے مشورہ کر کے محمد علی جناحؒ کو ولایت بھجوا دیا۔ جناحؒ کے بچپن کے حالات ہمیں بہت کم معلوم ہیں۔ لیکن جو تھوڑے بہت حالات ہم تک پہنچے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوسرے بچوں کی طرح کھلنڈرے نہیں تھے بلکہ انہیں جو فرصت کا وقت ملتا تھا وہ کھیلنے کودنے کے بجائے لکھنے پڑھنے میں گزار دیتے تھے۔کبھی کبھی تو مطالعہ کے شوق میں بہت رات گئے تک جاگتے رہتے تھے۔
وہ شروع سے دھن کے پکے تھے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے تھے اسے پورا کر کے چھوڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں صفائی ستھرائی کا بھی بڑا شوق تھا۔ کتابیں بڑے سلیقہ سے لگا کر رکھتے تھے اور ان پر کوئی داغ دھبہ نظر نہیں آتا تھا۔ ان کے کپڑے بھی صاف ستھرے ہوتے تھے۔ چنانچہ جن لوگوں نے ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ دیکھا ہے، ان کا بیان ہے کہ محمد علی جناحؒ کو اس زمانے میں اچھا لباس پہننے کے سوا کوئی شوق ہی نہیں تھا۔ ان کے رشتہ داروں میں شروع سے ان کی خوش پوشی کا چرچا تھا اور وہ جس طرف سے گزرتے تھے لوگوں کی نگاہیں بے اختیار ان کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔
گجرات کاٹھیاوار میں ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح یہ رواج مدت سے چلا آتا ہے۔ کہ اکثر شادیاں بچپن ہی میں طے ہو جاتی ہیں کھیم جی نام کے ایک خوجہ تاجر تھے جو راجکوٹ کے ایک گائوں ہیانی کے رہنے والے تھے۔ ان کی لڑکی امرت بائی سے محمد علی جناحؒ کا رشتہ بچپن ہی سے طے ہو چکا تھا۔ جناحؒ تو ولایت گئے ہوئے تھے۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھاکہ امرت بائی کے والد نے شادی کے لیے زور دینا شروع کیا محمد علی جناحؒ کی والدہ کی خواہش بھی یہی تھی کہ شادی جلد ہو جائے۔ چنانچہ جناح پونجا نے بیٹے کو شادی کے لیے ولایت بھجوایا۔ محمد علی جناحؒ شادی تو نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن والدین کے اصرار سے مجبور ہو گئے۔ انہیں شادی کر کے ولایت گئے ہوئے تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا کچھ عرصہ کے بعد یعنی شادی سے ٹھیک ساتویں مہینے امرت بائی بھی انتقال کر گئیں۔
تحریر: چراغ حسن حسرت