لاہور: ( تجزیہ:سلمان غنی ) تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتخابی میدان میں آنے سے قبل اقتدار میں آنے کی صورت میں اپنے 100دن کے پروگرام کا اعلان کیا ہے جن میں معیشت کی بحالی، خارجہ محاذ پر ترجیحات، تعلیم، ٹیکس اصلاحات، سول سروس کی بہتری کیلئے اقدامات، نئے ڈیمز کی تعمیر سمیت اہم ایشوز پر اپنے مؤقف کا اظہار کیا ہے ان کی جانب سے آنے والے مؤقف کو موجودہ صورتحال میں ایک سنجیدہ عمل تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس پر کس حد تک عمل درآمد ہو سکے گا؟ کیا ان کے پاس مذکورہ اقدامات اور اصلاحات کیلئے کوئی تجربہ کار ٹیم موجود ہے ، غیر متوقع انتخابی نتائج کی صورت میں پہلے سو روز کے پلان کا مستقبل کیا ہو گا؟۔
کیا اگر عمران خان برسر اقتدار آ جاتے ہیں تو فارن پالیسی خصوصاً بھارت سے تعلقات اور افغانستان سے امن ان کی حکومت کیلئے نو گو ایریا ہو گا۔ اندرونی استحکام کیلئے انتظامی معاملات خصوصاً پولیس اصلاحات کیلئے ان کے پاس کیا ہے ؟ اب تک کی عمران خان اور ان کی جماعت کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے کہ وہ اپنی سیاست کو محض اپنے مخالفین کیلئے الزام تراشی تک محدود رکھنے کے بجائے اب عملاً ملک میں حکمرانی کے بحران گورننس کے عمل اور دیگر سلگتے مسائل پر لب کشائی کر رہے ہیں اور پاکستان کو در پیش بحران کی کئی سمتوں کا اعادہ کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر جماعت الیکشن سے پہلے اپنا ایک بہترین انتخابی منشور عوام کے سامنے لاتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد جسے تلخ زمینی حقائق سے ان حکومتوں کو واسطہ پڑتا ہے کہ حکومت اپنی مدت پورا کرنا بھی غنیمت سمجھتی ہے۔
ہم نے ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں بھی دیکھی ہیں اور مسلم لیگ ن کے اقتدار سے پالا بھی پڑا ہے اور حقائق یہی ہیں کہ دونوں جماعتوں نے بر سر اقتدار آنے کے بعد اگر کسی چیز سے سب سے زیادہ صرف نظر کیا ہے تو وہ ان کا منشور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس منشور پر ملنے والے ووٹوں کے بعد عمل درآمد نہ ہونے پر عوام اپنی حکومتوں سے جلد ہی مایوس ہو جاتے ہیں جس سے نہ صرف حکومتیں کمزور ہوتی ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کا منشور بھی اپنی وقعت کھو دیتا ہے، اب قوم کی اجتماعی نفسیات یہ بن چکی ہے کہ سیاسی جماعتیں منشور کے نام پر عوام کو چکر دیتی ہیں۔ مستقبل کے سہانے خواب دکھاتی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کا طرز حکمرانی اپنے منشور کے بالکل برعکس ہوتا ہے ۔ لہٰذا عمران خان اور ان کی جماعت کے سامنے تلخ حقائق موجود ہیں اور حکومت میں آنے کے متمنی عمران خان کو یہ معلوم نہیں کہ اگر وہ یہ معرکہ سر کر لیتے ہیں تو انہیں ایک ایسی سینیٹ سے واسطہ پڑے گا جس کے 104 کے ایوان میں ان کے پاس صرف بارہ یا تیرہ اراکین ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ معیشت کے دبائو کا چیلنج قبول کرنے کیلئے ایک ایسی قانون سازی کی ضرورت ہو گی جو فوری طور پر ٹیکس اصلاحات کو اپنا موضوع بنانے اور معیشت کیلئے ایسے مؤثر اقدامات کرے جو بظاہر نا ممکن نظر آتے ہیں عمران خان نے ابھی سو دن کا پلان تو دے دیا ہے مگر اس پر عملدرآمد کیلئے ان کے پاس ماہرین کی ٹیم نظر نہیں آتی اور ابھی انہوں نے ان سو دنوں کے اہداف کو قوم کے سامنے مزید تفصیل سے نہیں رکھا۔ قوم ان سے سننا چاہتی ہے کہ ٹیکس اصلاحات کیسے نافذ کرینگے ، ایکسپورٹس کو کیسے بڑھائیں گے ۔ درآمدی بل کو کیسے کم کریں گے ۔ ملک میں خارجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے ان کے پاس کیا ہے اور بیرونی ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر کو بڑھانے کیلئے کیا پر کشش اعلانات ہیں۔ انہوں نے نعرے تو اچھے لگائے ہیں۔
بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے نئے ڈیمز کی بات کی ہے ، نئے پن بجلی کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ بڑے ڈیمز کی تعمیر کا منصوبہ نہ تو پانچ سالوں میں مکمل ہوتا ہے اور ان کیلئے وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ خود ان کے اپنے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کالا باغ ڈیم کے نام پر آگ بگولہ ہوتے نظر آتے ہیں۔ پھر دیکھنا یہ پڑے گا کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل کالا باغ ڈیم کا نعرہ لگوانے والے عمران خان جو 2013 کے انتخابات کے بعد خاموش ہو گئے تھے اب بڑے ڈیمز کی تعمیر کے عمل کو ممکن کیسے بنائیں گے۔ عمران خان نے بہت سے مسائل کا ذکر تو کیا مگر گزشتہ پانچ سال میں انہیں اپنے صوبہ پختونخوا میں ان ایشوز سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
خصوصاً اقوام متحدہ کی ترقیاتی پالیسی کی حالیہ رپورٹ میں افرادی قوت کے حوالے سے پختونخوا کے گراف کو جنوبی پنجاب سے بھی نیچے دکھایا گیا ہے جو خود ان کی حکومت کے آگے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ عمران خان جو گزشتہ کئی سالوں سے سب سے زیادہ احتساب کے عمل پر زور دیتے رہے ہیں کیا حکومت میں آنے کی صورت میں خود ان کی جماعت میں شامل نیب زدہ افراد پر کوئی گرفت کر سکیں گے ۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں کا بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ بڑے بڑے نامی گرامی کرپٹ عناصر اور مافیا سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر اس پر اپنی گرفت کر لیتے ہیں کہ حکومت میں آنے کی صورت میں کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں د یکھ سکتا۔ جس سے کرپشن کے رجحان میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزامات عائد کرنے والے عمران خان کے اپنے حلقوں میں بھی اب ایسے عناصر وافر تعداد میں موجود ہیں۔
عمران خان کی جانب سے سو دن کا ایجنڈا قابل عمل ہو گا جب ملک میں امن و امان کی صورتحال خصوصاً دہشت گردی کے حوالے سے جنگ میں یقینی فتح اور اس کا خاتمہ ہو گا تبھی ملک میں باہر سے سرمایہ کاری آئے گی ۔ تبھی ملک میں سیاحت ہوگی۔ تبھی بیرونی ملک سے پا کستانی اپنا سرمایہ یہاں لائیں گے مگر اس حوالے سے پاکستان کی بھارت کے ساتھ خارجہ پالیسی افغانستان میں امن کی بحالی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کا اعادہ نہ تو انہوں نے مینار پاکستان کے جلسہ میں کیا اور نہ ہی پہلے سو دنوں کے ایجنڈا میں خارجہ پالیسی کے ان خاص موضوعات کا کوئی ذکر ہے شاید عمران خان اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ ان بنیادی موضوعات کو چھیڑے بغیر ملک کے معاشی مستقبل کی سمت ٹھیک کرسکتے ہیں۔ ان کی خوش فہمی ہے ۔ ٹیکسیشن کی بات اہم ہے مگر کیا عمران خان اقتدار میں آنے کی صورت میں وکلا ، ڈاکٹرز، انجینئرز سے ٹیکس وصول کر پائیں گے ، عمران خان کے اس سو دن کے پروگرام کو ان کی انتخابی مہم کے حوالے سے ایک سنجیدہ پیش رفت تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر عملاً اس پر عمل درآمد جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ ابھی قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ملک کے اندر جو طاقتیں عمران خان کیلئے فضا بنا رہی ہیں کیا وہ انہیں سولو فلائٹ کی اجازت دینگی۔