اسلام آباد: (دنیا نیوز) قومی اسمبلی اجلاس کے شور شرابے میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے 5246 ارب روپے کا ٹیکس فری وفاقی بجٹ پیش کر دیا، تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ، کم سے کم پنشن چھ ہزار سے بڑھا کر دس ہزار مقرر
مفتاح اسماعیل کا آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں معیشت کے حجم میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 14-2013ء میں ایک تباہ شدہ معیشت ملی تھی لیکن حکومتی کارکردگی کی وجہ سے معاشی ترقی کی شرح 13 سال کی بلند ترین سطح پر رہی جو اب 5 اعشاریہ 8 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے حکومت سنبھالی تو دہشتگردی کا سامنا تھا، ملک میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں تھی۔2013 ء میں مسلم لیگ (ن) نے معیشت میں بہتری کیلئے اقدامات کیے اور ذاتی مفادات کو کبھی ترجیح نہیں دی۔
بجٹ کے چند اہم نکات:
انہوں نے بتایا کہ آئندہ وفاقی بجٹ 19-2018ء میں سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ میں 50 فیصد اضافہ، بڑے افسران کی کارکردگی کے لیے 5 ارب روپے مختص، سول و عسکری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کا ایڈہاک ریلیف جبکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 124 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال 19-2018ء کے بجٹ میں بجلی کی گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز پر عائد 16 فیصد کسٹم ڈیوٹی واپس لینے کی تجویز، ایل ای ڈیز کی تیاری کیلئے مختلف پارٹس کی درآمد پر عائد 5 فیصد کسٹم ڈیوٹی واپس لینے اور گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کر کے 25 فیصد اور 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا تخمینہ 5246 ارب روپے ہے، قرضوں اور سود کے لیے 1620 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔
آئندہ بجٹ میں پنشن کے لیے 342 ارب روپے خرچ کرنے کا تخمینہ، دفاع کے لیے 1100 ارب روپے خرچ کرنے کا تخمینہ، سبسڈیز کے لیے 174 ارب روپے خرچ کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی بجٹ 19-2018ء کا مکمل متن
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ترقیاتی بجٹ 1067 ارب روپے ہو گا۔ ٹیکس آمدن کا ہدف 4435 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدن کا ہدف 771 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
وزیرِ خزانہ نے اعلان کیا کہ بجٹ 19-2018ء میں تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ فیملی پنشن کو 4500 سے بڑھا کر 7500 روپے کیا جا رہا ہے۔ 75 سال سے زیادہ کے عمر کے پنشنرز کو 15000 ہزار روپے ماہانہ دیا جائے گا۔ کم سے کم پنشن 6000 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن اراکین نے ایک غیر منتخب شخص کی جانب سے بجٹ پیش کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اپوزیشن ارکان نے وزیرِ خزانہ کے ڈائس کے سامنے بجٹ کاپیاں پھاڑ دیں اور ان کی تقریر کے دوران شور شرابہ شروع کر دیا لیکن انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھی۔
وزیرِ خزانہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ مالی سال 19-2018ء میں تنخوا دار طبقے لئے بڑا ریلیف دیتے ہوئے سالانہ 12 لاکھ کمانے والے کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال مجموعی ترقی کی شرح میں 5.4 فیصد رہی، پانچ سال میں 33 ہزار 285 کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔ ترسیلات زر 20 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی اور سٹیٹ بینک کے ذخائر 11 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔
مفتاح اسماعیل نے تقریر میں کہا کہ زرعی قرضے 800 ارب روپے تک پہنچ جائیں گے جبکہ نجی قرضے 441 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ برآمدات میں 13 فیصد جبکہ درآمدات میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال شرح نمو 5.8 فیصد رہی جو گزشتہ 13 سال میں بلند ترین سطح ہے۔
آئندہ بجٹ میں جائیداد کی خرید وفروخت پر ایف بی آر کے مقرر کردہ نرخ ختم کرنے اور جائیداد کے سودوں کے اندراج میں فریقین کے مابین باہمی معاہدے میں طے کردہ قیمت ہی تصور کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
مالی سال 19-2018ء بجٹ کا مکمل متن یہاں پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کا حجم 34 ہزار ارب سے بڑھ چکا ہے۔ حالیہ سال زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 3.58 فیصد رہی۔ کسانوں کو مختلف قسم کے مراعات دی گئیں جس سے زراعت میں ترقی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح 3 اعشاریہ 8 فیصد رہی جبکہ مالیاتی خسارہ 5 اعشاریہ 5 فیصد تک محدود رہے گا۔ 5 ارب روپے سے ایگریکلچر فنڈ قائم کر دیا گیا ہے۔
بجٹ تقریر میں کہا گیا کہ 2 سے 4 لاکھ روپے ماہانہ آمدن والوں پر 10 فیصد جبکہ 4 لاکھ سے زائد ماہانہ آمدن پر 15 فیصد انکم ٹیکس عائد ہو گا۔ سالانہ 24 لاکھ سے اور زائد 48 لاکھ سے کم کمانے والے پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز، سالانہ 24 لاکھ سے زائد 48 لاکھ سے کم تنخواہ والوں کو ٹیکس کے علاوہ 7 ہزار روپے بھی ادا کرنے ہونگے سالانہ 48 لاکھ سے زائد کمانے والوں پر 15 فیص ٹیکس لاگو ہو گا۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ مالیاتی خسارہ 8.2 فیصد سے کم کر کے 5.5 فیصد پر لے آئے۔ 5 سال میں ٹیکس وصولیوں میں 2 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا۔ معشیت کا حجم 34 ہزار ارب سے بڑھ چکا ہے۔ آج ہم دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت ہیں۔ گزشتہ 9 ماہ میں برآمدات میں 13 فیصد جبکہ گزشتہ ماہ برآمدات میں 24 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی درآمدات میں 17 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سال کے آخر تک ترسیلات زر 20 ارب ڈالرکا ریکارڈ عبور کریں گی۔ معاشی اصلاحات کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ کا سرمایہ 100 ارب ڈالر ہو گیا۔ گزشتہ 5 سال میں 223 ارب ڈالر کی ریکارڈ سرمایہ کاری ہوئی۔
بجٹ میں زرعی قرضوں کا ہدف 1100 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ زرعی شعبے کو 800 ارب روپے کے قرضے دے رہے ہیں۔ زرعی شعبے کیلئے مراعات جاری رکھی جائیں گی۔ کھادوں پر جنرل سیلز ٹیکس 2 فیصد لا رہے ہیں۔
بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.9 فیصد ہو گا۔ آئندہ 3 سال میں مالیاتی خسارہ بتدریج کم کیا جائے گا۔ ایف بی آر کی وصولیوں کا ہدف 4435 ارب جبکہ اقتصادی شرح نمو کا ہدف 6.2 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ این ایف سی کے تحت صوبوں کو 2500 ارب منتقل ہوئے ہیں۔ عارضی طور پر بے گھر ہونیوالوں کیلئے خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں بی آئی ایس پی کیلئے 125 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز، وزیرِاعظم یوتھ پروگرام کیلئے 10 ارب مختص اور سماجی تحفظ کے پروگرام کو جاری رکھا جائے گا۔