پاکستان پہلا غیر عرب ملک ہے جس نے آج تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا، وزیراعظم نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کر کے عوامی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان امریکہ کیلئے واضح پیغام ہے کہ امریکہ کی جانب سے آنے والے یکطرفہ جانبدارانہ اور غیر منصفانہ فیصلے تسلیم نہیں کئے جا سکتے اور اس پر اُمت مسلمہ کے اندر پیدا شدہ ردعمل کو محسوس کیا جائے اورمقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے اعلان کو واپس لیا جائے ، استنبول میں ہنگامی بنیادوں پر بلائے جانے والے او آئی سی کے اجلاس اور بعض اسلامی ممالک کے سربراہان کے درمیان ہونے والا مشاورتی عمل اس حوالہ سے اہم ہے کہ پہلی مرتبہ مسلم ممالک کی حکومتوں نے مشترکہ طور پر یہی موقف اپنایا ہے جس کے نعرے مسلم ممالک کے گلی کوچوں میں مسلم عوام بلند کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جہاں امریکہ کے اس فیصلہ کی مذمت کی ہے وہاں اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس ہو گا اور انہوں نے سلامتی کونسل پر دباؤ ڈالا کہ اگر اس نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کی جانبداری پر سوالیہ نشان ہو گا اور ادارہ کی غیر جانبدارانہ حیثیت نہیں رہے گی، ترکی کے صدر طیب اردوان نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر جہاں اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیا وہاں کھلے طور پر اعلان کیا کہ امریکی فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس نے کہا امریکہ نے متنازعہ فیصلہ سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ثالث کا کردار کھو دیا ہے مذکورہ کانفرنس کے نتیجہ میں امریکہ پر کس حد تک دباؤ آئے گا؟ کیا امریکہ اپنے اس فیصلہ پر پسپائی اختیار کرے گا ؟یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو کانفرنس کے حوالہ سے سامنے آئے ہیں ۔اس امر میں شک نہیں امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان سے قبل اس امر پر سوچ بچار ہوا ہو گا کہ عالم اسلام کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے اور اس سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے غالباً امریکی صدر کو عالم اسلام کی جانب سے متفقہ واضح ردعمل کی توقع یقیناً نہیں ہو گی۔
صدر ٹرمپ کے فیصلے کے ردعمل میں مسلم امہ نے سعودی عرب اور ایران کی لڑائی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر متوقع طور پر مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنے مشترکہ پلیٹ فارم او آئی سی کے ذریعے اسرائیل کے اقتصادی بائیکاٹ کی بات کی ہے اور یہی وہ کارگر آپشن ہے کہ اسے اگر پوری قوت سے بروئے کار لایا گیا تو اسرائیل فلسطین لبنان اردن اور مصر کے درمیان تنہائی کا شکار ہو جائے گا مگر اب بھی پوری اُمت مسلمہ کے سامنے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ مسلم حکمران اور ان کے فیصلے صدر ٹرمپ کے راستے کی رکاوٹ کیسے بن سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلم عوام خصوصاً عرب ممالک اور مسلم حکمران اپنے اختلافات سے بالاتر ہو کر جتنا متحد اور متفق رہیں گے اتنا ہی امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم کیلئے اس مسئلہ کا دفاع اور اسے برقرار رکھنا مشکل ہوتا جائے گا۔
کانفرنس میں اہم چیز خود ترک صدر کی جانب سے اختیار کیا جانے والا طرزعمل رہا انہوں نے برملا انداز میں اسرائیل کو دہشت گرد اور غاصب قرار دیا دراصل وہ اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے امریکہ پر دباؤ ڈالتے نظر آئے پاکستان نے بھی حقیقت پسندانہ اور جرأت مندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے جہاں اس امریکی فیصلے کی مذمت کی وہاں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ سوال اٹھا کر مسلم رہنماؤں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے کہ مسلم عوام ہم سے سوال کرتے ہیں ہم نے فلسطینی سلگتے مسئلہ کے حل کیلئے آج تک کیا کیا ،جہاں تک پاکستان کے اپنے کردار کا تعلق ہے تو پاکستان پہلا غیر عرب ملک ہے جس نے آج تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ وزیراعظم نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرکے عوامی جذبات کی ترجمانی کی۔ پاکستانی وزیراعظم نے عالمی دنیا کو مسئلہ فلسطین کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو بھی باور کرایا اور کہا کشمیر میں ستر سال سے معصوم اور نہتے کشمیری عوام کا خون بہایا جا رہا ہے اس ظلم اور بربریت کے خاتمہ کیلئے بھی ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔