جعلی شیمپو کریمیں سرعام فروخت، کینسر اور جلدی امراض پھیلنے لگے

Last Updated On 03 January,2019 05:03 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) رنگ گورا کرنے والی کریموں میں پارہ سمیت خطرناک کیمیکلز کا استعمال، 15 ہزار سے زائد کاسمیٹکس غیر رجسٹرڈ، چار سال قبل قانون سازی ہوئی ساحکومتی ادارے خاموش، ہر کمپنی رنگ گورا، کیل چھائیاں دور، بالوں کو گرنے سے روکنے، خشکی دور کرنے کے دعوے کرتی ہے مگر نتائج صفر، کیمیکلز سے جلد جھلس جاتی ہے۔

اس وقت مارکیٹ میں 15 ہزار سے زائد میڈیکل سے منسلک ادویات، شیمپو اور کریموں سمیت میک اپ کا سامان فروخت ہو رہا ہے جس میں مرکری پارہ، سٹیرائیڈ سمیت متعدد خطرناک کیمیکل شامل ہیں جنہیں کسی بھی لیبارٹری سے گزارے بغیر مارکیٹ میں لانے کی اجازت ہے۔

ڈریپ کے رولز 2014ء کے ایس آر او 412 کے تحت گزشتہ چار سال سے قانون سازی ہونے کے باوجود مارکیٹ میں 15 ہزار سے زائد کاسمیٹکس پراڈکٹ رجسٹرڈ نہ ہو سکیں اور ڈریپ سمیت دیگر اداروں نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ تاحال 99 فیصد کاسمیٹکس کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔ ہر کمپنی رنگ گورا کرنے، کیل چھائیاں دور کرنے اور بالوں کو گرنے سے روکنے کے علاوہ خشکی دور کرنے کے دعوے کرتی ہے مگر نتائج دینے میں ناکام ہے۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ رنگ گورا کرنے والی تقریباً تمام کریموں میں مرکزی پارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے مسلسل استعمال سے کینسر کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

جعلی کریموں کے استعمال سے خواتین کی جلد جھلسنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کریموں کے استعمال سے خراب ہونے والی جلد دوبارہ ٹھیک نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو ایسی کریموں کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کاسمیٹکس کمپنیوں کو باقاعدہ ریگولیٹ کیا جاتا ہے یہاں بھی قوانین سخت ہونے چاہیں۔