2019ء قومی کرکٹ ٹیم کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت

Last Updated On 25 December,2019 11:25 pm

لاہور: (علی مصطفیٰ) 2019ء اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے جہاں پر عالمی سطح پر متعدد واقعات رونما ہوئے وہیں پر پاکستانی کرکٹ میں بھی نشیب و فراز دیکھنے کو ملے، رواں سال پاکستان کرکٹ کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ کپتان کی تبدیلی کے باعث بھی ٹیم کی پرفارمنس میں تبدیلی نہ آ سکی، ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی قیادت سرفراز سے اظہر علی کے حصے میں آئی جبکہ ٹی ٹونٹی میں ناکامیوں کے بعد سرفراز احمد کی چھٹی کرانے کے بعد تاج بابر اعظم کے سر سجا، ون ڈے میں بھی گرین شرٹس ناکامیوں کی دلدل میں دھنسی رہی، سرفراز احمد سے کپتانی واپس لی گئی تو دو سیریز کے لیے شعیب ملک کپتان بنے تاہم روٹھی قسمت نہ مان سکی، آخری سیریز میں ایک مرتبہ سرفراز احمد کو کپتان برقرار رکھا تو فتح کے باعث شائقین کے چہرے کھل اُٹھے۔ ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ میچز میں سال بھر ایک ایک فتح حاصل کی جا سکی۔ ون ڈے میں ٹیم مزاحمتی کرتی نظر آئی۔

ٹی ٹونٹی میچز

پاکستان کے لیے ٹونٹی کرکٹ میں 2019ء ڈراؤنا خواب ثابت ہوا، ٹیم 10 میں سے صرف ایک میچ جیت سکی، 8 میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک بارش کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا، اس کارکردگی کے باوجود پاکستان اس وقت ٹی ٹونٹی کرکٹ میں عالمی نمبر ون پوزیشن پر براجمان ہے۔

2019ء میں گرین شرٹس نے سال کا آغاز ہی ناکامی سے کیا، ٹیم دورۂ جنوبی افریقا کے دوران یکم فروری کو کیپ ٹاؤن میں میزبان سائیڈ کے خلاف تین میچز کی سیریز کا پہلا میچ چھ رنز سے ہار گئی، جوہانسبرگ میں دوسری بار شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم 6 فروری کو سینچورین میں 27 رنز سے فتح نصیب ہو گئی جو سال کی واحد فتح تھی۔

5 مئی کو پاکستان ٹیم انگلینڈ کے خلاف کارڈف میں میچ 7 وکٹوں سے ہار گئی، اس کے بعد اکتوبر میں سری لنکا سے ہونے والی ہوم سیریز بھی وائٹ واش کھا لیا۔

ٹیم کی قیادت بھی سرفراز احمد سے چھین لی گئی، جنہوں نے قومی ٹیم کو ٹی ٹونٹی میں عالمی نمبر 1 بنوایا اور اپنی کپتانی کی دھاک دنیا بھر میں بیٹھا دی۔

گرین شرٹس نے نومبر میں آسٹریلیا کا دورہ کیا، تین میچز پر مشتمل سیریز کے پہلا میچ کا فیصلہ بارش کی وجہ سے نہ ہو سکا اور بعد ازاں کینبرا اور پرتھ میں منعقدہ دونوں میچز میں فتح قومی ٹیم سے دور رہی۔

رواں سال کے دوران ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کے کامیاب بیٹسمینوں میں بابر اعظم تھے جنہوں نے چار نصف سنچریوں کی مدد سے 374 رنز بنائے، ان کا زیادہ سے زیادہ رنز 90 رہا، افتخار احمد 150 رنز کیساتھ دوسرے نمبر پر رہے، آل راؤنڈر عماد وسیم 121 کیساتھ تیسرے نمبر پر رہے، سابق کپتان سرفراز احمد چار میچوں میں صرف 67 رنز ہی بنا سکے۔

باؤلنگ کی بات کی جائے تو قومی ٹیم کے فاسٹ باؤلرز زیادہ کامیاب نہ ہو سکے، صرف محمد عامر کے حصے میں پورے سال سات وکٹیں آئیں جس کے لیے انہوں نے سات میچ کھیلے، جبکہ عماد وسیم نے 10 شکار کیے۔

ٹیسٹ میچز

پاکستان نے رواں سال ٹیسٹ میچز کا آغاز ساؤتھ افریقا سے کیا، اس ٹور کے دوران قومی ٹیم مزاحمت کرتی نظر آئی جہاں پہلے میچ کی دونوں اننگز میں 180 اور 191رنز بنا سکی، پہلی اننگز میں بابر اعظم 71 جبکہ دوسری اننگز میں شان مسعود 65 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ باؤلنگ کے دوران صرف پہلی اننگز میں محمد عامر کا جادو چل سکا اور چار وکٹیں حاصل کر سکے۔

دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی قومی ٹیم زیادہ جدوجہد نہ کر سکی، اس بار پہلی اننگز میں 177 رنز بنائے جبکہ دوسری باری میں 294 سکور کی اننگز کھیل سکی، اسد شفیق 88 جبکہ بابر اعظم 72 رنز کیساتھ نمایاں رہے۔ محمد عامر اور شاہین شاہ آفریدی صرف پہلی اننگز میں چار چار وکٹیں حاصل کر سکے۔

تیسرے ٹیسٹ میچ میں بھی ہار قومی کا مقدر بنی، اس بار پاکستانی ٹیم 107 رنز سے ہار گئی، اسد شفیق 65، سرفراز احمد 50، اور بابر اعظم 49 رنز کی باری کھیل سکے۔ اس طرح سال کے آغاز پر ہی قومی ٹیم کو ٹیسٹ میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔

رواں سال کی ٹیسٹ چیمپئن شپ کے پہلے سیریز کے دو میچز میں قومی ٹیم کو کینگروز کے ہاتھوں ذلت آمیز اُٹھانا پڑی، پہلے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم پہلی اننگز میں 240 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی، اسد شفیق 76 رنز بنا سکے جس کے بعد آسٹریلیا نے قومی باؤلرز کے ینگ باؤلرز کا بھرکس نکال دیا اور 580 رنز بنائے۔ ڈیوڈ وارنر اور لبوشنگے نے سنچریاں داغیں۔

دوسری اننگز میں قومی ٹیم 335 رنز بنا سکی اور اننگز سے ہار گئی، اس اننگ کی خاص بابر اعظم کی شاندار مزاحمتی سنچری تھی، انہوں نے 104 رنز بنائے تاہم محمد رضوان کے ارمانوں پر پانی پھر گیا جو نروس نائٹیز ہو کر 95 رنز پر پویلین لوٹ گئے۔ باؤلنگ اس بار بھی اپنا جادو نہ چلا سکی۔ صرف یاسر شاہ کے حصے میں چار وکٹیں آئیں۔

دوسرے ٹیسٹ میچ پاکستان کیلئے زیادہ خوفناک ثابت ہوا جب کینگروز ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، اوپنر ڈیوڈ وارنر نے قومی ٹیم کے باؤلرز کو بے بس کر دیا، لیفٹ ہینڈ بیٹسمین نے 335 رنز کی اننگز کھیلی تو کپتان نے ڈکلیئر کرنے کو اکتفا سمجھا، اس اننگ کی ایک اور خاص بات لبوشنگے کی مسلسل دوسری بار قومی ٹیم کے خلاف سنچری بھی تھی جنہوں نے 162 رنز بنائے۔

اس بار کپتانی کی ذمہ دار اظہر علی کے پاس جنہوں نے مزاحمت کی تاہم شکست قومی ٹیم کا مقدر بنی، پہلی اننگز میں کوئی بھی پلیئر نہ چل سکا، تاہم آخری لمحات میں سپنر یاسر شاہ نے زبردست انداز میں سنچری داغ کر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو آئینہ دکھایا۔ انہوں نے 113 رنز کی باری کھیلی، اس بار نروس نائٹیز کا شکار بابر اعظم ہو گئے جنہوں نے 97 رنز کی باری کھیلی تو سٹارک کی شاندار گیند پر آؤٹ ہو گئے۔

دوسری اننگز میں شان مسعود 68 رنز بنا کر مزاحمت کی، اسد شفیق بھی نصف سنچری بنا سکے تاہم دیگر کھلاڑی ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور پوری ٹیم 239 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور اس بار اننگز کی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم ہوم گراؤنڈ پر 10 سال واپس آنے والی کرکٹ کا مزہ کرکرا اس وقت ہوا جب پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران بارش نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا، صرف پہلے روز میچ پورا تو اگلے تین روز بارش نے شائقین کے ارمان ٹھنڈے کر دیئے، پہلے ٹیسٹ کے آخری روز کی شاندار بات سامنے جب ایک عالمی ریکارڈ سامنے آیا، اوپنر عابد علی نے سری لنکا کے خلاف سنچری بنائی، جو ون ڈے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میچ میں کسی بھی کھلاڑی کی ڈیبیو پر سنچری تھی۔ اس سے قبل وہ آسٹریلیا کے خلاف ڈییبو ون ڈے پر سنچری بنا چکے تھے۔ اسی اننگز میں بابر اعظم نے بھی اپنی اعلیٰ کلاس ثابت کرتے ہوئے زبردست شارٹس کھیلے اور اپنی تھری فیگر اننگز کھیلی۔

تاہم دوسرا میچ اس وقت سنسنی خیز ہوا جب پاکستان اور سری لنکا کے خلاف شہر قائد میں شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے پہلے روز سری لنکن ٹیم نے قومی ٹیم کی بیٹنگ کے پرخچے اُڑا دیئے اور ٹیم صرف 191 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ اسد شفیق 63 رنز بنا سکے۔

قومی بیٹسمینوں کی ناکامی کے بعد بلے بازوں نے زبردست پلٹ کر وار کیا تو ٹیم کو 271 رنز تک محدود کر دیا، چندیمل کی 74 رنز کے علاوہ دیگر بیٹسمین قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔ شاہین شاہ آفریدی نے پہلی بار پانچ وکٹیں حاصل کیں جبکہ محمد عباس کے حصے میں چار وکٹیں آئیں۔

دوسری اننگز میں پاکستان نے عالمی کرکٹ میں ورلڈ ریکارڈ بنایا جب قومی ٹیم کی طرف سے پہلے چار بیٹسمینوں نے حریف ٹیموں کے چار سنچریاں داغیں، قومی ٹیم کے اوپنر عابد علی ، بابر اعظم نے مسلسل دوسری، اظہر علی کی روٹھی قسمت جاگ اٹھی تو انہوں نے بھی سنچری داغی ، کافی عرصے کے بعد شان مسعود کا بلا بھی سنچری بنانے میں کامیاب ہوا، جنہوں نے سری لنکا کے خلاف دوسری مرتبہ دوسری اننگز میں سنچری بنائی اس سے قبل انہوں نے سری لنکا میں دوسری اننگز میں قومی ٹیم کے لیے سنچری بنائی اور ہارتا ہوا میچ جیتا۔

پاکستانی ٹیم کا رواں سال کا ٹیسٹ میچز کا یہ سفر یہی پر اختتام ہوا، جہاں قومی ٹیم پورے سال میں ٹی ٹونٹی کی طرح صرف ایک ٹیسٹ میچ جیت سکی۔

ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی طرف سے شاہین شاہ آفریدی 5 میچز میں 17 وکٹیں حاصل کر سکے۔ محمد عباس 5 میچز میں 11 وکٹیں لے سکے۔

بیٹسمینوں میں بابر اعظم 6 میچز میں 616 رنز بنا کر قومی ٹیم کے سرفہرست کھلاڑی رہے، ان رنز میں انہوں نے تین سنچریاں اور تین نصف سنچریاں بنائیں۔ شان مسعود 6 میچز میں 440 رنز بنا کر دوسرے ٹاپ کھلاڑی رہے۔ انہوں نے دو ففٹیاں اور ایک تھری فیگر اننگز کھیلی۔

ون ڈے کرکٹ

ون ڈے کرکٹ میں قومی ٹیم تھوڑی مزاحمت کرتی نظر آئی، جہاں رواں سال کا پہلا میچ جنوبی افریقا میں میزبان ٹیم کو ہرایا، جہاں پر ڈوپلیسی الیون نے 266 رنز بنائے جو قومی ٹیم نے محمد حفیظ کی شاندار بیٹنگ کی بدولت حاصل کر لیا۔ انہوں نے 63 گیندوں پر 71 رنز بنائے تھے۔ اس میچ کی خاص بات امام الحق کی 86 رنز کی باری تھی۔

دوسرے میچ میں فتح قومی ٹیم سے روٹھ گئی، سرفراز الیون صرف 203 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ کوئی بھی بیٹسمین قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکا، اس میچ میں حسن علی 59 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ جنوبی افریقا کی طرف سے ونڈر ویسن نے 80 رنز کی شاندار باری کھیلی تھی جبکہ باؤلرز بے بس نظر آئے۔

تیسرے میچ میں قومی ٹیم فتح کی متلاشی رہی، پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 317 رنز بنائے، امام الحق نے سنچری داغی، بابر اعظم 69 رنز بنا سکے۔ جبکہ افریقی ٹیم 187 رنز پر موجود تھی کہ بارش آ گئی یوں میچ ڈک ورتھ لوئس کے تحت میچ پروٹیز ٹیم نے بہتر رن ریٹ کی وجہ سے جیت لیا۔

چوتھے میچ میں عثمان خان شنواری کے باعث میزبان ٹیم 164 رنز پر ڈھیر ہو گئی، فاسٹ باؤلر نے چار شکار کیے جبکہ ٹیم نے ہدف دو وکٹوں کے نقصان پر 31.3 اوورز میں حاصل کر لیا، امام الحق اس بار بھی 71 رنز بنا کر ٹاپ سکورر رہے۔

فیصلہ کن میچ میں میزبان ٹیم نے میچ جیت کر سیریز اپنے نام کی، پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی، 240 رنز بنا سکی، ہدف چالیس اوورز میں ڈوپلیسی الیون نے حاصل کر لیا۔ فخر زمان 70 رنز بنا کر نمایاں رہے۔

اس سے اگلی ہوم سیریز پاکستان کے لیے کسی خوف سے کم نہ تھی، اس بار کپتانی کی ذمہ داری شعیب ملک کے سر آن پڑی تاہم قیادت کی تبدیلی بھی ٹیم کو میچ نہ جتوا سکی، جس اس سیریز میں ٹیم 5-0 سے وائٹ ہو گئی۔ اس سیریز کی خاص بات یہ تھی کہ بیٹسمین رنز کرتے نظر آئے تاہم باؤلرز کی ہمت جواب دے گئی اور وکٹیں نہ لے سکیں۔

پہلے میچ میں حارث سہیل نے سنچری بنائی، جبکہ اس میچ میں حریف کپتان ارون فنچ کی سنچری کے باعث میچ آسانی سے جیت لیا۔

دوسرے میچ میں محمد رضوان نے سنچری بنائی، 284 رنز تک سکور پہنچایا تاہم ایک مرتبہ پھر ارون فنچ نے 153 رنز کی اننگز کھیل کر ٹیم سے فتح چھین لی۔

تیسرے میچ میں قومی ٹیم نے جلد ہتھیار ڈال دیئے، مہمان ٹیم نے 266 رنز بنائے، فنچ کی مسلسل شاندار 90 رنز کی کارکردگی کے باعث ٹیم نے 266 رنز بنا سکی، با آسان ہدف کے تعاقب میں ٹیم 186 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ کوئی بھی کھلاڑی ففٹی بھی نہ بنا سکا۔

چوتھے میچ میں آسٹریلیا نے 277 رنز بنائے، میکسیویل 98 کیساتھ ٹاپ سکورر رہے، قومی ٹیم مقررہ اوورز میں 271 رنز بنا سکی۔ عابد علی نے پہلے ون ڈے میچ میں سنچری بنانے کے ساتھ 112 رنز کی باری کھیلی، حیران کن طور پر محمد رضوان 104 رنز بنا سکے پھر بھی میچ ٹیم نہ جیت سکی۔

پانچویں ون ڈے میچ میں مہمان ٹیم نے 327 رنز بنائے۔ عثمان خواجہ 98 سکور کیساتھ سرفہرست رہے تاہم اس بار ٹیم حارث سہیل کی سنچری کے باوجود ہدف کے قریب پہنچ کر ہمت ہار گئی۔ بیٹسمین نے 130 رنز کی اننگز کھیلی۔

انگلینڈ کے خلاف سیریز میزبان ٹیم نے مہمان ٹیم کا بھرکس نکال دیا، پہلا ون ڈے بارش کی نظر ہوا، دوسرا ون ڈے میچ میں انگلینڈ نے 373 رنز کا پہاڑ کھڑا کیا تو گرین شرٹس نے بھی زبردست مزاحمت کی تاہم مقررہ اوورز میں 361 رنز پر بنا سکی، فخر زمان نے 138 رنز بنائے تھے۔

تیسرے میچ میں قومی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر رنز کا کوہ ہمالیہ کھڑا کیا جو میزبان ٹیم نے بیرسٹو کی شاندار سنچری کی بدولت حاصل کر لیا، سرفراز الیون نے 358 رنز بنائے، امام الحق 151 کیساتھ نمایاں رہے۔ تاہم بیرسٹو کی 128 رنز کی برق رفتار اننگز نے پھانسہ پلٹ دیا۔

سیریز کے چوتھے میچ میں بھی قومی باؤلرز شائقین کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے، اس بار بھی ٹیم نے 340 رنز کا مجموعہ ترتیب دیا، بابر اعظم نے 115 رنز بنائے، تاہم جیسن روئے اور بین سٹوکس کی اعلیٰ اننگز نے فتح قومی ٹیم سے چھین لی۔ روئے 114 رنز ، سٹوکس 71 کیساتھ نمایاں رہے۔

پانچویں میچ میں برطانوی ٹیم نے 351 رنز کا پہاڑ کیا تو گرین شرٹس 297 رنز بنا سکی، کپتان سرفراز احمد 97 رنز کیساتھ نمایاں رہے۔ بابر اعظم 80 رنز کی اننگز کھیل سکے۔

ورلڈکپ2019ء

ورلڈکپ میں شرکت کا پروانہ قومی ٹیم نے انٹری دی تو کینگروز نے پہلا میچ 41 رنز سے جیت لیا۔ وارنر نے 107 رنز کی اننگز کھیلی۔ قومی ٹیم امام الحق کے باعث 266 رنز پر پہنچ سکی، لیفٹ ہینڈ بیٹسمین نے 53 رنز بنائے۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف قومی ٹیم کو ذلت آمیز شکست کا ہار گلے میں لٹکانا پڑا، قومی ٹیم صرف 21.4 اوورز میں 105 رنز پر ڈھیر ہو گئی، کالی آندھی نے ہدف 13.4 اوورز میں حاصل کر لیا۔ کوئی پاکستانی کھلاڑی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکا، پارٹ ٹائم باؤلر تھامسن نے چار شکار کیے۔ ہدف کے تعاقب میں گیل نے 50 رنز بنائے۔

روایتی حریف بھارت نے پاکستان کو بآسانی 89 رنز سے ہرایا، انڈیا نے پہلے کھیلتے ہوئے 336 رنز بنائے۔ قومی ٹیم 40 اوورز میں 212 رنز بنا سکی جس کے باعث ڈتھ ورک لوئس کے تحت میچ کا رزلٹ کوہلی الیون کے حصے میں چلے گیا۔ روہت شرما 140 کیساتھ نمایاں رہے، فخر زمان نے 62 رنز بنائے۔

میگا ایونٹ کے تیسرے میچ میں قومی ٹیم نے پروٹیز ٹیم کو دبوچ لیا، پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 308 رنز بنائے، حارث سہیل 89 رنز کیساتھ نمایاں رہے، حریف ٹیم 259 رنز بنا سکی، ڈوپلیسی 63 کیساتھ سرفہرست رہے۔ وہاب ریاض نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

نیوزی لینڈ کے خلاف میچ بہت سنسنی خیز ثابت ہوا، ولیمسن الیون نے 237 رنز بنائے، جیمی نیشام نے 97 رنز بنائے، ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم کی طرف سے بابر اعظم اور حارث سہیل کی شاندار بیٹنگ کی بدولت قومی ٹیم نے فتح کو گلے لگایا، بابر 101 رنز کیساتھ نمایاں رہے۔

افغانستان کے خلاف چھوٹا ہدف بھی رائی کا پہاڑ بن گیا، افغانستان نے 227 رنز بنائے تو ہدف کے تعاقب میں عماد وسیم کی شاندار بیٹنگ کی بدولت قومی ٹیم نے بمشکل یہ میچ دو گیندوں قبل جیتا۔ عماد وسیم نے 49 رنز کیساتھ 2 کھلاڑیوں کو پویلین بھیجا۔

ورلڈکپ میں جب قومی ٹیم ایونٹ سے آؤٹ ہوئی تو آخری میچ میں 500 رنز کی باتیں سننے کو ملیں۔ تاہم اس میچ میں پاکستان نے بنگلا دیش کیخلاف 315 رنز بنائے۔ امام الحق 100 جبکہ بابر 96 رنز کیساتھ نمایاں تھے، حریف ٹیم 221 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور قومی ٹیم کا ورلڈکپ کا سفر ختم ہوا۔

رواں سال کی آخری ون ڈے سیریز پاکستان میں کھیلی گئی جب سری لنکن ٹیم ایک مرتبہ پھر پاکستان کھیلنے آئی۔ پہلا میچ بارش کے باعث بے نتیجہ ختم ہوا۔

دوسرے میچ میں قومی ٹیم نے 305 رنز بنائے، بابر اعظم نے اعلیٰ اننگز کھیلتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سنچری داغی اور 115 رنز کی ہوم گراؤنڈ پر اننگز کھیلی۔ مہمان ٹیم 238 رنز بنا سکی۔ شیہان جے سوریا 96 کیساتھ ٹاپ سکورر رہے۔

تیسرے میچ میں مہمان ٹیم نے قدرے اچھا میچ کھیلا اور قومی ٹیم کو 297 رنز کا ہدف دیا، اس بار بھی گرین شرٹس کی طرف سے فخر زمان، عابد علی نے زبردست اننگز کھیل کر ٹیم کو فتح دلوائی، لنکن ٹیم کے گوناتھیکلے کی 133 رنز کی اننگز رائیگاں گئیں۔

رواں سال بیس ون ڈے میچوں کے دوران دوران بابر اعظم نے 1092 رنز بنائے، جن میں تین سنچریاں اور چھ نصف سنچریاں شامل ہیں۔ امام الحق 21 میچوں میں 904 رنز کیساتھ دوسرے نمبر پر رہے، انہوں نے تین سنچریاں اور تین نصف سنچریاں بنائیں۔

باؤلنگ میں شاہین شاہ آفریدی 13 میچز میں 27 وکٹیں حاصل کر سکے، بیسٹ باؤلنگ 35 رنز کے چھ وکٹیں تھی۔ محمد عامر 15 میچوں میں 23 وکٹیں حاصل کر سکے۔