اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے عوام کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ بہت جلد گھی 150،100 روپے سستا ہو جائے گا۔انشاء اﷲ ایک ہفتہ کے اندر گھی اور خوردنی تیل کی قیمت 350 سے 400 روپے کلو ہو جائے گی۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ﷲکی مہربانی سے جو لوگ معیشت کے حوالہ سے چہ میگوئیاں کر رہے تھے ان کیلئے اطلاع ہے کہ معیشت قابو میں آ گئی ہے، سابق نااہل حکومت نے کرپشن کا جو بازار گرم کیا تھا اور جو بارودی سرنگیں بچھائی گئی تھیں اس پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے گئے اور ہم نے معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا اور اب ہم استحکام کی طرف جا رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ بات خوش آئندہ ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 100 ڈالر تک آ گئی ہے اور اس کا فائدہ مناسب وقت پر عوام کو منتقل کیا جائے گا۔ اس سے قبل مناسب اور متوازن بجٹ کی منظوری دی گئی، امیر لوگوں سے ہم نے قربانیاں مانگی ہیں جبکہ غریبوں لوگوں کو مراعات اور سہولتیں فراہم کی گئیں۔ سابق حکومت کی طرف سے تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ حسابات جاریہ کے کھاتوں کا دوسرا بڑا خسارہ آیا ہے، اس صورتحال میں حکومت نے معاشی استحکام پر توجہ دی، چین سے ساڑھے 4 ارب ڈالر ملے ہیں، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھے ہیں، جلد ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں گھی اور خوردنی تیل کی قیمت 1700 ڈالر فی ٹن سے کم ہو کر ایک ہزار ڈالر کی سطح پر آ گئی ہے اور بہت جلد پاکستان میں گھی اور خوردنی تیل کی قیمت میں 100 سے 150 روپے فی کلو/لٹر کمی آ جائے گی، عالمی منڈی میں گندم کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے، اس صورتحال میں ای سی سی کے اجلاس میں گندم کی خریداری کیلئے پہلے سے جاری کردہ ٹینڈر منسوخ کیا گیا ہے اور اب نیا ٹینڈر جاری کیا جائے گا تاکہ ہمیں کم قیمت پر گندم مل سکے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ صورتحال میں بتدریج بہتری آ رہی ہے، جتنا عرصہ گزرے گا سابق نااہل حکومت کی نااہلی کے اثرات کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی پیداوار کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کروٹ پاور پراجیکٹ اس سال کے آغاز میں شروع ہونا تھا مگر اس پر اب کام شروع ہوا جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی، حویلی بہادر۔II تریموں کیلئے 2018ء میں مشینیں آئی تھیں اور 2019ء میں اس نے پیداوار کا آغاز کرنا تھا مگر بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے دور کے تیزی سے مکمل ہونے والے منصوبوں کو ادھورا چھوڑ دیا تھا۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بارشوں سے پہلے بجلی کی طلب 30 ہزار میگاواٹ تک بڑھ گئی تھی جبکہ پورے پاکستان کی استعداد 23 ہزار میگاواٹ سے زائد نہیں ہے، حکومت میں آتے ہی ہمیں 7500 میگاواٹ کے خسارے کا سامنا تھا، ان میں 5 ہزار میگاواٹ کے پلانٹس ایندھن کی وجہ سے جبکہ 2500 میگاواٹ کے پلانٹس مرمت نہ ہونے کی وجہ سے بند تھے، حکومت نے ایندھن منگوایا ہے جبکہ پلانٹس کی مرمت بھی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایل این جی کے 10 ٹینڈر جاری کرائے مگر اس کا کوئی رسپانس نہیں آیا کیونکہ اس وقت عالمی منڈی میں ایل این جی اور گیس کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں، اگر پی ٹی آئی کی حکومت اس وقت سودے کرتی جب ایل این جی 4 ڈالر پر مل رہی تھی تو ہمیں اس بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا، پی ٹی آئی کی حکومت نے ان سستے معاہدوں پر جیلوں میں ڈالا جس کی وجہ سے اب پاکستان چل رہا ہے، خود انہوں نے پھر 36 ڈالر کے سودے کئے، پی ٹی آئی کی حکومت مہنگے پلانٹس چلاتی رہی جبکہ سستے پلانٹس بند رکھے گئے، ہماری یہ پالیسی نہیں ہے، حکومت نے جنوبی افریقہ، انڈونیشیا اور آسٹریلیا سے بھی کوئلہ منگوایا ہے، ایل این جی کے سودے بھی ہو رہے ہیں، گزشتہ سال کی نسبت زیادہ بجلی بن رہی ہے، اگر پی ٹی آئی کی حکومت بجلی کی استعداد پر کام کرتی تو یہ مسائل سامنے نہ ہوتے، اگلے دو دنوں میں 1100 میگاواٹ کا نیوکلیئر پاور پلانٹ چل جائے گا اور انشاء اﷲ آنے والے 15 دنوں میں لوڈ شیڈنگ کی صورتحال میں نمایاں بہتری آ جائے گی۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پنجاب حکومت 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی اپنے وسائل سے دے رہی ہے تاکہ غریب لوگوں کے آنسو پونچھے جا سکیں مگر پی ٹی آئی اس کے خلاف عدالتوں میں چلی گئی، پی ٹی آئی نے ہمیشہ امیروں اور سرمایہ کاروں کو مراعات اور سبسڈیز کی حمایت کی ہے جبکہ غریبوں کو ملنے والے سبسڈی پر یہ لوگ عدالتوں میں چلے گئے ہیں، 100 یونٹ تک مفت بجلی کی سہولت بند کرکے پی ٹی آئی نے اچھا کام نہیں کیا۔ انہیں پنجاب حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئے تھے، اس کے برعکس جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو رئیل اسٹیٹ کے شعبہ کو دو، دو سالوں تک ٹیکس میں استثنیٰ دیا گیا، غریب لوگ سابق خاتون اول کو ہیروں کی انگوٹھیاں نہیں دے سکتے اس لئے عمران خان غریبوں کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں، ان کی ساری جماعت اور سیاست جھوٹ پر کھڑی ہے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ روس سے تیل کی خریداری کا جھوٹ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے، عمران خان نے فروری میں روس کا دورہ کیا تھا تو مارچ میں اس نے روس سے سستے تیل کی خریداری کیوں نہیں کیا، اسی طرح لنگر خانے بند کرنے کی بات بھی غلط ہے کیونکہ یہ لنگر خانے حکومت نہیں بلکہ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ چلا رہا ہے جو اب بھی چل رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کامیاب جوان پروگرام کے قرضوں کو بھی روکا نہیں جا رہا بلکہ اس کو نئے سرے سے شکل دی جا رہی ہے، جو سکیم پی ٹی آئی کی حکومت نے شروع کی تھی اس میں بینکوں کے منافع کی شرح بہت زیادہ رکھی گئی ہے، ہم حقدار نوجوانوں کو اس کا حق دیں گے اور 20 سے 25 لاکھ روپے تک کے قرضے دیئے جائیں گے۔
ایک سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف سے پروگرام کے حوالہ سے معاملات درست انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں، ابھی تک کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئی ہے اور بہت جلد آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات مقامی طور پر منتقل ہوں گے، انشاء اﷲ ایک ہفتہ کے اندر گھی اور تیل کی قیمت 350 سے 400 روپے کلو ہو جائے گی۔ ہماری کوشش ہے کہ ہمارا درآمدی بل کم ہو، نان انرجی امپورٹ بل کم ہوا ہے تاہم توانائی کا درآمدی بل کم نہیں ہوا، ہمیں امید ہے کہ جولائی میں درآمدی بل کم ہو گا جبکہ حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ بھی کم ہو جائے گا۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ سگریٹ پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے، پہلے دو کمپنیاں ٹیکس دیتی تھیں جبکہ دیگر کمپنیاں ٹیکس چوری میں ملوث تھیں، زیادہ تر سگریٹ ساز کمپنیوں کے مالکان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، حکومت نے بین الاقوامی سگریٹ ساز کمپنیوں کو ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے دائرہ کار میں شامل کر لیا ہے۔