لاہور: ( روزنامہ دنیا) مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کی سیاسی وارث مریم صفدر کے اڈیالہ جیل میں جانے کے بعد پارٹی کی الیکشن مہم کا تمام تر بوجھ اب شہباز شریف کے کندھوں پر لاد دیا گیا ہے۔ بحیثیت پارٹی صدر ان کو یہ کام بخوبی انجام دینا چاہئے۔ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف جو پانچ سال سے عملاً صوبہ پنجاب کے سب سے زیادہ طاقتور سیاستدان رہے ، ان کو بھی اپنے والد محترم کے ساتھ الیکشن مہم میں ہاتھ بٹانا چاہئے۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے دونوں بادل نخواستہ یہ کام کر رہے ہیں انہوں نے گنتی کے اکا دکا جلسے کئے ہیں۔ حمزہ شہباز کا رویہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، بڑی ہمت کر کے وہ قصور تک پہنچے کیا ان لوگوں کے پاس ہوائی جہاز نہیں یا ان کے ہیلی کاپٹرز کے پنکھے خراب ہو گئے ہیں۔ ان کے برعکس عمران خان ایک ہی دن میں کئی جلسے کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ملک کے طول و عرض میں اپنا اور پارٹی کا پیغام لے کر جا رہے ہیں۔
شہباز شریف اور حمزہ کے رویے سے چند سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا پارٹی قائد اور بڑے بھائی کو پابند سلاسل دیکھ کر کہیں چھوٹے میاں صاحب نے ہمت تو نہیں ہاردی ؟ کیا شہباز شریف اپنے آپ کو غیرمتحرک کر کے ردعمل کا تو اظہار نہیں کر رہے کہ پارٹی میں ان کو صدر کے عہدے کے مطابق حیثیت ہی نہیں دی گئی ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف کی پوری کوشش تھی کہ چودھری نثار پارٹی کا حصہ رہیں لیکن ان کی ایک نہ چلی ۔ اس کے ساتھ شہروں قصبوں اور دیہات میں جہاں ایک طرف تحریک انصاف پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے بھرپور بینرز اور اشتہار نظر آتے ہیں ، ن لیگ کم ہی کہیں نظر آتی ہے۔
بظاہر اس غیرمتحرک اور جوش و جذبے سے عاری الیکشن مہم کی ساری ذمہ داری پارٹی کے موجودہ صدر شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر عائد ہوتی ہے ۔ موجودہ حالات میں تو دونوں باپ بیٹے کو عمران خان سے دگنی محنت شاقہ کی ضرورت تھی۔ خصوصاً مریم صفدر کی غیرموجودگی میں حمزہ شہباز کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ لاہور سے باہر نکلتے اور پورے ملک میں اپنے تایا اور پارٹی قائد کا بیانیہ پھیلاتے۔ اگر بیانیہ سے اختلاف ہے تو اپنی سیاست کی ہی داغ بیل ڈال دیتے لیکن افسوس حمزہ نے اس موقع کو ضائع کر دیا۔ سیاست میں وقت بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اب ن لیگ کا مستقبل جو بھی ہو مریم صفدر ہی آنے والے وقتوں میں پارٹی سنبھالیں گی۔
پارٹی کے کچھ قریبی حلقوں کے مطابق باپ بیٹے کا بجھے دل کے ساتھ الیکشن مہم میں حصہ لینا ظاہر کرتا ہے ان اختلافات کو جو مریم اور حمزہ شہباز کے درمیان پیدا ہو چکے ہیں کچھ اور واقفان حال کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں خصوصاً 25 جولائی کے بعد مریم اور حمزہ شہباز کے درمیان اختلافات جو ابھی تک دبے لفظوں بیان ہو رہے ہیں کھل کر سامنے آئیں گے۔ حیران کن طور پر انتخابات کے دنوں میں حمزہ شہباز کم اور مریم اورنگزیب ٹی وی سکرینوں پر زیادہ نظر آ رہی ہیں۔ مریم اورنگزیب شروع سے ہی نوازشریف اور مریم صفدر کیمپ میں شامل رہی ہیں۔ ایک انتہائی معتبر ن لیگی رہنما کے مطابق شہباز شریف ابھی تک اس کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پنجاب کے اندر کچھ حصہ مل جائے تاہم حالات کا رخ اس سمت جاتا ہے یا نہیں ، اسکا پتہ 25 جولائی کو چلے گا۔