متوسط طبقے کے نام پر انتخابی عمل میں حصہ لینے والے تگڑے امیدوار

Last Updated On 26 June,2018 10:44 pm

لاہور: (دنیا الیکشن سیل) متوسط طبقے کو سامنے لانے کے دعویداروں نے نوجوانوں کو انتخابات میں شامل کرنے کے دلاسے دے کر ایک بار پھر مالدار خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نئے چہرے متعارف کرائے ہیں۔ ملک کے چاروں صوبوں سے پہلی بار انتخاب لڑنے والے نوجوان بااثر خاندان وشخصیات سے تعلق رکھتے ہیں۔

2018 کے الیکشن کے قریب آتے ہی جہاں سیاستدانوں کے اثاثہ جات کی خبریں زیربحث ہیں، وہیں تمام پارٹیوں کے ان وعدوں کو بھی زیر بحث لایا جا رہا ہے کہ آیا متوسط طبقہ کے محب وطن پاکستانی جو ملک کی خدمت کرنے کے خواہ ہیں، کیا ان کووعدوں کے مطابق موقع دیا گیا یا نہیں؟ الیکشن سے پہلے ہر پارٹی اپنے منشور میں نوجوانوں اور درمیانہ طبقہ کے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دینے کے دعوے کرتی ہے مگر ہر الیکشن میں اس طبقے کو کافی حد تک صرف اس وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی کے لیے مالی فنڈ دینے اور اپنی الیکشن کمپین چلانے کے لیے رقم کا انتظام نہیں کرسکتے۔

تفصیلات کے مطابق نئے امیدوار جو متوسط طبقہ سے نیشنل اسمبلی کی سیٹ کے لیے پہلی بار مختلف پارٹیوں سے الیکشن لڑیں گے وہ اس بار بھی خاندانی اثرورسوخ پر ہی ٹکٹ حاصل کرسکے ہیں۔ لیکن چند ایک امیدوار ایسے بھی ہیں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے خاران، پنجگور سے میر حاصل خان بزنجو کی نیشنل پارٹی سے این اے-270 کے لیے پھولین بلوچ پہلی بار الیکشن کا حصہ ہوں گے۔ ان کا تعلق بلوچ قبائل کے عام گھرانے سے ہے۔

بلوچستان کے ہی علاقے تربت این اے-271 سے ابو الحسن جو کہ نیشنل پارٹی کے ممبر ہیں، پہلی بار الیکشن کا حصہ ہوں گے۔ ابو الحسن کا تعلق بھی بلوچستان کے عام گھرانے سے ہے، جو کہ جمہوریت کے حوالے سے ایک خوش آئند بات ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا بھی تعلق ایک عام بلوچ گھرانے سے ہے اور وہ بھی نیشنل پارٹی کے ممبر ہیں۔

پیپلز پارٹی کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں پر ایلیٹ سیاسی کلچر نظر آتا ہے کیونکہ سابق صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان کے بیٹے منور وسان کو 2018 کے الیکشن کے لیے این اے-211 سے پارٹی ٹکٹ مل چکی ہے۔

اسی طرح ملتان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کو این اے-157 کے لیے پارٹی ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔

سابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی آئندہ الیکشن میں اپنے بیٹے حسن علی شاہ سے انتخابی دنگل لڑائیں گے۔ سید حسن علی شاہ قومی اسمبلی کی نشست این اے-211 سے آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پارٹی صدر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی معاملات کی نگرانی بھی کر رہے ہیں اور عملی سیاست کا آغاز الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-200 لاڑکانہ اور این اے- 246 لیاری سے کریں گے۔ اپنے والد کی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ارب پتی ہیں، جن کی پاکستان اور بیرون ملک پراپرٹیز ہیں اور دبئی اور برطانیہ میں سرمایہ کاری بھی کر چکے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے فراہم کردہ اثاثہ جات کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ ان کے پاس 5 کروڑ روپے نقد موجود ہیں جبکہ بینک اکاؤنٹس میں 1 کروڑ 38 لاکھ روپے جمع ہیں۔ تاہم حیران کن طور پر بلاول ایک بھی گاڑی کے مالک نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی بات کی جائے تو آج کل پارٹی ٹکٹس کو لے کر کارکنوں کی جانب سے عمران خان کو احتجاج کا سامنا ہے۔ نشستوں کے حصول کے لیے مضبوط سیاسی خاندانوں کو زیادہ نوازا جا رہا ہے۔ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو آئندہ الیکشن میں پہلی بار سیاست کے میدان میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا جا رہا ہے۔

اوکاڑہ کی سیاست سے اہم سیاسی شخصیت اور سابق ایم این اے راؤ سکندر اقبال کے بیٹے راؤ حسن سکندرکو بھی پہلی بار اپنے والد کی نشست پر انتخابی میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ راؤ حسن سکندر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-141 سے الیکشن لڑیں گے۔

مسلم لیگ ن کے سربراہان کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نئے امیدوارں میں اپنی اولاد سمیت صرف مضبوط سیاسی خاندانوں کے امیدوارں کو ہی پارٹی ٹکٹ دی گئی۔ سیالکوٹ سے سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے بیٹے علی زاہد کو پارٹی ٹکٹ سے نواز دیا گیا ہے۔ علی زاہد حامد اپنے والد کی نشست پر این اے-74 سے الیکشن لڑیں گے۔

راولپنڈی سے مسلم لیگ ن کے سابق سینٹر چودھری تنویر خان کے بیٹے دانیال چودھری کو انتخابی دنگل میں اتارا جا رہا ہے اور وہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-62 سے اپنی سیاسی سفر کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازحلقہ این اے-127 سے پہلی بار سیاست کا آغاز کرنے جا رہی ہیں۔ مریم نواز چودھری شوگر ملز، حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ میں شئیر ہولڈر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے حمزہ اسپننگ ملز اور محمد بخش ٹیکسٹائل ملز میں بھی شیئرز ہیں۔
دستاویزات کے مطابق مریم نواز 1506 کنال ایک مرلہ، زرعی زمین کی مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی فیملی کی زیر تعمیر فلورملز میں 34 لاکھ 62 ہزارکی سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے۔ مریم نواز 4 کروڑ 92 لاکھ کے تحائف کے ساتھ ساتھ ساڑھے 17 لاکھ کے زیورات کی بھی مالک ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف قومی اسمبلی کے حلقہ این اے- 124 سے پہلی مرتبہ میدان میں اتر رہے ہیں۔ حمزہ شہباز کے اثاثہ جات پر نظر ڈالیں تو 43 لاکھ 70 ہزار 243 روپے کا بینک بیلنس ہے اور وہ رمضان شوگر ملز سمیت 21 نجی ملز میں شئیر ہولڈ رہیں۔

دنیا میں کہیں بھی بشمول پاکستان، جمہوریت ایک سیاسی نظام کے طور پر عوام کے لیے ہے اور عوام ہی سے ہے۔ مگر جمہوری نظام جب سرمایہ درانہ نظام کے ماتحت ہو جائے تو متوسط طبقہ بھی سرمایہ دار کے ماتحت ہو جاتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو نئے تعلیم یافتہ محب وطن سیاستدانوں کی ضرورت ہے جو ملک کے سٹریٹیجک فیصلے لے سکیں اور ملک کو احسن انداز اور حقیقی ترقی پر گامزن کر سکیں۔ مگر اس طبقہ کے نوجوانوں کو حکومت کا موقع کب ملے گا؟ اس سوال کا جواب ابھی تک کسی کے پاس نہیں ہے۔