لاہور: (دنیا الیکشن سیل) سیاستدانوں کی جانب سے ایک سے زائد انتخابی حلقوں سے لڑنے کا شوق، عوام کے کاندھوں پر 10 سے 15 کروڑ روپے تک کا بوجھ ڈالتا ہے جبکہ ایک حلقہ پر کل خرچہ 20 سے 25 کروڑ تک کا ہوتا ہے۔
عام انتخابات قریب آتے ہی وطنِ عزیز میں انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے۔ مختلف علاقوں سے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے امیدوار اپنے اپنے مقاصد اور منشور کی تکمیل کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا رہے ہیں۔ ایسے میں کچھ امیدوار ایسے بھی ہیں جو کہ ایک سے زائد حلقوں سے انتخاب لڑنے کی خواہش رکھتے جن میں پارٹی سربراہان کے علاوہ نامی گرامی رہنما بھی شامل ہیں۔ سیاستدانوں کا ایک سے زائد حلقوں سے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا رجحان اپنی شخصیت کی تشہیر کیلئے ہے یا انتخابی حکمت عملی؟ بہرحال یہ عمل پاکستانی عوام پر کروڑوں روپے مالیت کا بوجھ ڈالتا ہے۔
جن حلقوں پر انتخابی عمل ہوتا ہے، ان پر پہلی دفعہ انتخابی عمل کے دوران ایک حلقے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے انتظامی امور کی مد میں 5 کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ کی جاتی ہے جبکہ امیدوار کی جانب سے الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حد کو نظر انداز کرتے ہوئے 7 کروڑ روپے تک خرچ کئے جاتے ہیں۔
اس طرح پہلی دفعہ میں ایک انتخابی عمل پر کل 10 سے 12 کروڑ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ جب دو یا دو سے زائد سیٹوں پر جیتنے والا امیدوار ایک نشست کے سوا باقی خالی کرتا ہے تو ان نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرایا جاتا ہے۔ دوبارہ انتخابی عمل پورا کرنے پر بھی مذکورہ بالا طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے 10 سے بارہ کروڑ روپے تک کے اخراجات آتے ہیں۔
اس حوالے سے جب دنیا الیکشن سیل نے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ایک حلقے کا انتخاب کروانے میں الیکشن کمیشن کے اخراجات کی لاگت تقریباً پانچ کروڑ ہے۔ امیدواروں کی طرف سے کیے جانے والے اخراجات اس کے سوا ہیں۔
ابھی تک کے اعدادوشمار کے مطابق تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان بیک وقت ملک کے پانچ حصوں سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے، جو اب تک کی ملکی تاریخ میں کسی ریکارڈ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی پارٹی سربراہ کی جانب سے بیک وقت اتنے حلقوں سے انتخاب لڑنے کی نظیر نہیں ملتی۔
عمران خان اسلام آباد، لاہور، کراچی، بنوں اور آبائی علاقے میانوالی سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ انتخاب میں بھی عمران خان تین مختلف حلقوں سے بیک وقت انتخاب میں حصہ لے چکے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری پہلی مرتبہ انتخابی اکھاڑے میں اترے ہیں۔ انہوں نے بھی قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے ہیں جن میں لیاری کا حلقہ این اے 247 اور لاڑکانہ کا این اے 200 شامل ہیں۔ متحدہ مجلسِ عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 53 اور 93 سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواچکے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی انتخابی امیدواروں کی ایک نمایاں تعداد ایک سے زائد حلقوں سے انتخابی اکھاڑے میں اترنے کی خواہش مند ہے جن میں میاں شہباز شریف، چودھری نثار علی خان، سراج الحق، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید احمد، جاوید ہاشمی اور جمشید دستی شامل ہیں۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سے کئے گئے سروے کے مطابق ایک نشست پر اوسطاً 10امیدوار حصہ لیتے ہیں اور مجموعی طور پر عام انتخابات کے فوری بعد قومی اسمبلی کی اوسطاً 10 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی 40 کے قریب نشستیں خالی ہو جاتی ہیں جس پر ضمنی انتخاب کروانا پڑتا ہے۔ ان ضمنی انتخابات کے اخراجات کی اگر کْل لاگت نکالی جائے تو یہ دو ارب روپے کی مالیت کا بوجھ بنتا ہے۔
ہمسایہ ملک بھارت میں انہی عوامل کی بنیاد پر گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے امیدواروں کیلئے ایک حلف نامہ تیار کیا جس کے مطابق کوئی بھی شخص ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب نہیں لڑ سکتا۔ بھارت کے علاوہ بھی دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے خصوصی طور پر قانون سازی کی گئی ہے جس سے ملکی خزانے پر کم سے کم بوجھ کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال اور معروضی حالات میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ یہاں بھی ایسے قوانین مرتب کیے جا سکیں جن سے مالی بوجھ میں کمی واقع ہو، سیاستدانوں کے غیر ضروری انتخاب میں کھڑے ہو جانے کے راستے مسدود ہوں، ووٹ کی حرمت برقرار رہے، ووٹر کا اعتماد بحال رہے اور جمہوری اور نظام بھی مضبوط ہو۔