ہیڈ لائنز سروے، پنجاب کی سیاسی صورتحال

Last Updated On 19 June,2018 03:21 pm

لاہور (دنیا نیوز )پاکستان کے چاروں صوبوں میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر الیکشن کا انعقاد 25 جولائی کو کیا جا رہا ہے جس میں عوام اپنے پسندیدہ نمائندوں کو منتخب کر کے ایوان میں بھیجیں گے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تمام صوبوں کے کردار کو یوں تو ہمیشہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن پنجاب اور سندھ کو اس حوالے سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ وفاق اور پنجاب میں قائم کی جانے والی حکومتوں کا فیصلہ انہی دو صوبوں کی سیاست سے ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا ٹی وی کے خصوصی پروگرام ہیڈلائنز میں ایک سروے رپورٹ تیار کی گئی جس کے مندرجات درج ذیل ہیں۔

صوبہ پنجاب 

ملکی سیاست میں صوبہ پنجاب کو ہمیشہ سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں کون سیاستدان وفاق کی سطح پر کامیابی حاصل کرے گا اور کون حکومت سازی کیلئے فیورٹ ہے اس کا فیصلہ اسی صوبے کی سیاست سے ہوتا ہے۔ صوبہ پنجاب قومی اسمبلی کی 141 نشستوں کے ساتھ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی صوبے کی سیاست سے اس بات کا بھی تعین ہوتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب کس امیدوار کے پاس جا سکتا ہے ۔ گزشتہ دو انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں دو بار مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کا اعزاز حاصل ہوا لیکن اس بار تحریک انصاف کے عمران خان پنجاب کی سیاست میں خاصے سرگرم ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں اس بار تبدیلی آئے گی۔

جنوبی پنجاب صوبہ محاذ

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری کی جانب سے بھی یہی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پنجاب اس بار ان کا ہوگا۔ یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ پیپلز پارٹی نے   جنوبی پنجاب صوبہ محاذ    کے نام پر عوام کو کس حد تک قائل کیا اور کس حد تک ان کے خیالات تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئی، مسلم لیگ ن کی تو یہی کوشش ہے کہ پنجاب میں مسلسل تیسری حکومت ان کی بنے لیکن زرداری کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کا لالی پاپ اور تحریک انصاف کی جانب سے تبدیلی کے نعرے کیا عوام کو قائل کر سکیں گے اس کیلئے تو انتظار کرنا ہوگا۔

لاہور کے اہم حلقے اور امیدوار

صوبائی دارالحکومت میں کئی ایسے حلقے ہیں جہاں سے کئی سیاسی جماعتوں کے اہم اور کلیدی امیدوار میدان میں ہیں، صوبہ پنجاب قومی اسمبلی کی 141 اور صوبائی اسمبلی کی 297 نشستوں پر مشتمل ہے۔ صوبہ پنجاب اور قومی اسمبلی کی پہلی نشست کا حلقہ این اے اور پی پی ایک اٹک سے شروع ہوتا ہے جبکہ اس کا اختتام راجن پور کے بارڈر پر ہوتا ہے۔ حلقہ بندیوں سے قبل اس حلقے میں قومی اسمبلی کی 148 نشستیں تھیں جبکہ نئی حلقہ بندیوں میں یہ تعداد گھٹ کر 141 تک آگئی، یہ صورتحال ان امیدواروں کیلئے خاصی پریشان کن تھی جو ماضی میں ان حلقوں سے مسلسل کامیاب ہوتے آئے تھے۔ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ پنجاب سے 35 ، تحریک انصاف نے 3 جبکہ ق لیگ اور عوامی مسلم لیگ کا ایک ایک امیدوار ان حلقوں سے سرخرو ہوسکا۔ پروگرام   ہیڈلائنز    کے سروے کے مطابق مسلم لیگ ن کو پنجاب میں 52 فیصد ، پی ٹی آئی کو 39 فیصد مقبولیت حاصل ہے۔ جبکہ پاکسان پیپلز پارٹی کو ایک فیصد اور دیگر جماعتوں کو 8 فیصد مقبولیت حاصل ہے۔

لاہور میں علیم خان اور ایاز صادق میں بڑا معرکہ ہونے کی امید ہے ۔ عبدالعلیم خان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور وہ عمران خان کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں شمار کئے جاتے ہیں جبکہ ایاز صادق بھی اپنی ملنسار اور دھیمی طبیعت کے حوالے سے حلیفوں اور حریفوں دونوں میں اپنا ایک حلقہ احباب رکھتے ہیں۔ ایاز صادق سابق دور حکومت میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے اور پھر قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے۔