سری نگر: (ویب ڈیسک) بھارت کے غیرقانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے نام نہاد انتخابات میں بی جے پی کو بھاری شکست کا سامنا ہے۔
کانگریس- نیشنل کانفرنس اتحاد نے نصف حد عبور کر لی ہے اور 90 میں سے 49 سیٹیں حاصل کر کے اسمبلی انتخابات جیت کر حکومت بنانے کے لیے تیار ہے، ان میں سے 42 سیٹیں نیشنل کانفرنس، 6 انڈین نیشنل کانگریس اور ایک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی ہے۔
اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات میں ووٹروں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسترد کر دیا ہے، اب تک سامنے آنے والے رجحانات کے مطابق نیشنل کانفرنس اورکانگریس اتحاد کو 90 نشستوں میں سے 49 پر برتری حاصل ہے۔
جموں و کشمیر میں 2014 کے بعد پہلے اسمبلی انتخابات تین مرحلوں میں ہوئے، 18 ستمبر کو ہونے والے ابتدائی مرحلے میں 24 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوئی، اس کے بعد 25 ستمبر کو دوسرے مرحلے میں 26 سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی، بقیہ 40 سیٹوں کے لیے تیسرا مرحلہ یکم اکتوبر کو ہوا۔
انتہائی متوقع انتخابات میں اہم دعویدار کانگریس-نیشنل کانفرنس اتحاد، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) تھے، یہ انتخاب جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم ہونے کے پانچ سال بعد ہوا ہے۔
انتخابات کے بعد اتحاد کے امکانات پر تبصرہ کرتے ہوئے، نیشنل کانفرنس (NC) کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ان کی پارٹی محبوبہ مفتی کی PDP کے ساتھ مل کر خطے میں حکومت بنانے کے لیے تیار ہے۔
یہ قابل ذکر ہے کہ ہندو اکثریتی جموں میں بی جے پی کو حمایت حاصل ہے لیکن وادی کشمیر میں کسی گروپ کی حمایت نہیں ہے۔
نیز، جیسا کہ نتیجہ نکلا ہے، دوسری جماعتوں اور ان کے اتحادوں کی جیت مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی پانچ سالہ سرمایہ کاری اور سیاسی انجینئرنگ کی مکمل ناکامی کا باعث بنے گی۔
بی جے پی کے حق میں نتائج بدلنے کے لیے پوری ریاستی مشینری کو تعینات کیا گیا اور محکمہ پولیس میں تقرر و تبادلے کیے گئے تھے لیکن کشمیریوں نے خصوصی حیثیت کی منسوخی کو مسترد کر دیا اور بی جے پی کو شکست ہوئی۔