نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکی صدر جوزف بائیڈن نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے سے متعلق دوبارہ سے مذاکرات شروع کرنے میں دلچسپی اس لیے رکھتے ہیں تاکہ ایسی غلطیاں نہ کی جائیں جن سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال مزید خراب ہو۔
میونخ سلامتی کانفرنس سے ورچوئل خطاب کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں شفافیت اور بہتر بات چیت کے ذریعے اسٹریٹجک غلط فہمیوں اور غلطیوں کو کم سے کم سطح پر لانا ہو گا۔
امریکی میڈیا کے مطابق بائیڈن کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے کہ جب ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ تہران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی اس صورت میں بند کرنے کو تیار ہوگا کہ اگر امریکا ان کے ملک پر عائد پابندیاں اٹھا لے۔
جواد ظریف کا ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ اگر امریکہ غیر مشروط اور قابل عمل طور پر وہ تمام پابندیاں اٹھا لے جو سابق صدر ٹرمپ نے ایک بار نافذ کیے جانے کے بعد دوبارہ نافذ کی تھیں۔ تو ایران تمام ایسے اقدامات جو رد عمل میں کیے گئے تھے واپس کر لے گا۔ صدر جو بائیڈن کی جانب سے 2015 کے معاہدے میں واپسی کا اعلان سابق صدر ٹرمپ کے ایران کو مکمل دباؤ کے ذریعے تنہا کر کے اس کے جوہری پروگرام کو کمزور کرنے کی پالیسی کی نفی ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ جوہری پھیلاؤ کو روکنے کے لیے محتاط سفارت کاری اور ہمارے درمیان تعاون بہت ضروری ہے تاکہ غلطیوں سے بچا جا سکے۔ اسی لیے وہ مذاکرات دوبارہ سے شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔
بائیڈن نے اس بات کا بھی وعدہ کیا کہ امریکا اپنے یورپی حلیفوں کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے ایران کی جانب سے مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے اقدامات کے خلاف کام کرنے کو تیار ہے۔
واضح رہے کہ 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران پر پابندیاں نافذ کر دی تھیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔
ٹرمپ نے ایران پر غیر قانونی بیلسٹک میزائل پروگرام چلانے اور خطے میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات لگاتے ہوئے معاشی پابندیاں عائد کی تھیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کے علاوہ جرمنی نے مشترکہ طور پر اوباما انتظامیہ کی جانب سے ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی تصدیق کی تھی۔
اس معاہدے کے تحت ایران معاشی ریلیف کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو بڑے پیمانے پر محدود کرنے پر راضی ہوا تھا۔ بعض ناقدین کی رائے ہے کہ صدر بائیڈن کو جوہری معاہدے میں واپس شمولیت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کے ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ سے لگائے جانے کے عزم کو واپس لیا ہے۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ نے امریکا میں اقوامِ متحدہ کے لیے تعینات ایران کے سفارت کاروں پر نقل و حرکت کی پابندی میں کچھ چھوٹ دی ہے۔
ان دو اقدامات پر اسرائیل نے تنقید کی ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پُر عزم ہے اور وہ اس سلسلے میں امریکہ سے رابطے میں ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ امریکا ایران پر لگائی گئی پابندیاں رواں ماہ 23 فروری تک ہٹانا شروع کر دے۔ ورنہ وہ بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنہ کرنے والے ماہرین کو اس کی جوہری تنصیبات کے معائنے سے روک دے گا۔