واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکا میں واشنگٹن سمیت بیشتر ریاستوں میں پولنگ کا وقت ختم ہو گیا جبکہ گنتی کا عمل جاری ہے۔ اب تک کے ایگزیٹ پولز میں جوبائیڈن کو صدر ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔ جوبائیڈن 238 الیکٹورل ووٹوں کے ساتھ آگے جبکہ ٹرمپ 213 الیکٹورل ووٹ کیساتھ پیچھے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ یا جوبائیڈن کو صدارت سنبھالنے کے لیے 538 میں سے 270 الیکٹورل ووٹس کی ضرورت ہے، پولنگ کے مکمل نتائج آنے اور ان کے حتمی سرکاری اعلان کے لیے رواں سال 14 دسمبر کی تاریخ رکھی گئی ہے۔امریکی صدارتی الیکشن میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے فلوریڈا، ٹیکساس، اوہائیو اور اوکلاہوما میں ٹرمپ نے میدان مار لیا۔ واشنگٹن، نیویارک، ایری زونا میں جوبائیڈن کامیاب ہوئے، ان کو کیلی فورنیا سے 55 الیکٹورل ووٹ ملے۔
ریاست وسکونسن میں جوبائیڈن کو برتری ملی ہے جہاں پہلے ٹرمپ کو برتری ملی تھی۔ دونوں امیدواروں کے درمیان جارجیا اور مشی گن میں کانٹے کا مقابلہ ہے، پنسلوینیا اور الاسکا میں ٹرمپ آگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہم انتخابات میں جیت کے قریب ہیں، ٹرمپ کا دعوٰی
دوسری طرف ڈیمو کریٹ پارٹی کے جوبائیڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے صدارتی امیدوار بن گئے۔ اب تک جو بائیڈن کے حق میں 6 کروڑ 97 لاکھ59 ہزار 833 ووٹ پڑ چکے ہیں۔
ان سے پہلے سابق امریکی صدر باراک اوباما 6 کروڑ 94 لاکھ 98 ہزار 516 ووٹوں کے ساتھ سب سے اوپر تھے، اوباما نے 2008 کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے کا ریکارڈ بنایاتھا۔
اُدھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب تک 6 کروڑ71 لاکھ 60 ہزار 663 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔
ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے کہا ہے کہ اپنی پوزیشن سے مطمئن ہیں، امید ہے صدارتی انتخابات جیت جائیں گے، پنسلوانیا سے بھی کامیاب ہوں گے۔
جوبائیڈن نے امریکی شہر ولمنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جیت کی راہ پر گامزن ہیں، تحمل رکھیں ہم جیت رہے ہیں، حامیوں کا شکرگذار ہوں، نتائج مکمل ہونے میں وقت لگے گا، ہر ووٹ کی گنتی تک مقابلہ ہے۔
ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار کا کہنا تھا کہ پر امن انتقال اقتدار ہونے جا رہا ہے، میں جیت گیا تو امریکا کو سیاسی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونے دوں گا، ٹرمپ امریکا کو پیچھے لے کر گئے، ٹرمپ کی خام خیالی ہے کہ دوبار انتخابات جیت جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: عوام سے فراڈ ہو رہا ہے، ٹرمپ نے سپریم کورٹ جانے کی دھمکی دے دی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام سے فراڈ ہو رہا ہے، ان کے نزدیک تو وہ الیکشن جیت چکے ہیں، ری پبلکن امیدوار نے سپریم کورٹ جانے کی بھی دھمکی دے دی۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی عوام کے ساتھ فراڈ ہمارے ملک کے لیے باعث شرمندگی ہے، صاف صاف بتاوں تو ہم یہ الیکشن کلین کر چکے ہیں، امریکی عوام کے ساتھ یہ بڑا فراڈ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم باقاعدہ ضابطہ اخلاق کے ساتھ ان انتخاب کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے امریکی سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں، ہم چاہیں گے کہ صبح چار بجے والے ووٹ کو نتائج میں شامل نہ کیا جائے۔ یہ بڑے دکھ کا لمحہ ہے، میں یہ پھر بتاتا چلوں کہ ہم انتخابات پہلے ہی جیت چکے ہیں۔ جنہوں نے ہمیں سپورٹ کیا اور جنہوں نے ہماری مدد کی میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
امریکی انتخابات میں 270 کا ہندسہ اہم کیوں؟
امریکا کے صدارتی انتخابات میں 270 کے ہندسے کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ یہ ہندسہ خوش بختی کی علامت ہو یا نہ ہو، لیکن اس تعداد کے برابر یا اس سے زیادہ مندوبین یعنی ڈیلیگیٹس کے انتخاب پر کوئی امیدوار وائٹ ہاؤس تک پہنچ سکتا ہے۔
امریکی صدارت کا فیصلہ پاپولر ووٹ یعنی براہِ راست عوام کے ووٹ سے نہیں ہوتا۔ صدر کے چناؤ کا فیصلہ ایک ایسے نظام کے ذریعے ہوتا ہے جس کے دو مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں رائے دہندگان مندوبین کا انتخاب کرتے ہیں۔ اور جس بھی امیدوار کی حمایت کرنے والے مندوبین کی تعداد زیادہ ہو وہ وائٹ ہاؤس پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
اس نظام کے تحت ریاست کی سطح پر ڈالے گئے ووٹوں کے بعد الیکٹورل کالج تشکیل پاتا ہے اور پھر یہ الیکٹورل کالج یا مندوبین صدر کو منتخب کرتے ہیں۔
امریکی نظام کے تحت ہر ریاست میں اس کی آبادی کے تناسب سے الیکٹرز کی تعداد مخصوص ہے اور 48 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں جس جماعت کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں، اس ریاست سے اس پارٹی کے تمام الیکٹرز کامیاب تصور ہوتے ہیں۔ یعنی عام عوام کے ووٹ سے یہ الیکٹورل کالج تشکیل پاتا ہے۔ البتہ ریاست مین اور نیبراسکا میں قوانین مختلف ہیں اور وہاں ووٹوں کے تناسب سے الیکٹرز دونوں جماعتوں کے درمیان تقسیم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
امریکا میں ووٹرز تین نومبر کو ہونے والی پولنگ میں براہِ راست اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ البتہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال چکی ہے۔
تکنیکی طور پر عام ووٹرز نے صدارتی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا۔ بلکہ انہوں نے الیکٹرز یا مندوبین کو ووٹ دیا ہے۔ امریکا کی 50 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے منتخب ہونے والے مندوبین کے الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد 538 ہے جن میں سے 270 الیکٹرز کی حمایت حاصل کرنے والا امریکا کا صدر منتخب ہوتا ہے۔
اُن ریاستوں میں جہاں ٹرمپ پاپولر ووٹ جیتیں گے اُنہیں تمام الیکٹورل ووٹ ملیں گے جب کہ وہ ریاستیں جہاں جوبائیڈن پاپولر ووٹ اپنے نام کریں گے اس ریاست کے تمام الیکٹرز کے ووٹ انہیں ملیں گے۔
ڈیمو کریٹ پارٹی کا انتخابی نشان گدھا اور ری پبلکنز کا ہاتھی کیوں؟
امریکی دو اہم سیاسی پارٹیاں یعنی ڈیموکریٹ پارٹی اور ری پبلکن پارٹی گدھا اور ہاتھی کے علامتی نشانات سے منسوب ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں انتخابات اور دیگر مواقع پر خود کو ان نشانات کے ذریعے متعارف کراتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں شیر، چیتے اور شاہین اور عقاب وغیرہ کو طاقت اور دلیری کی علامت سمجھا جاتا ہے وہاں گدھے جیسے مسکین اور ہاتھی جیسے موٹی کھال رکھنے والے جانوروں کو دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کی دو سب سے بڑی پارٹیوں نے اپنی شناخت اور پہچان کے لیے کیوں چنا؟
امریکا میں ان جانوروں کی پارٹیوں سے منسوب ہونے کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے اور اس کہانی کی بنیادیں 19ویں صدی سے جڑی ہیں۔ یہ واقعہ ہے 1828 کی انتخابی مہم کا۔ وہ امریکا میں صدارتی انتخابات کی گہما گہمی کا سال تھا اور اینڈریو جیکسن الیکشن لڑ رہے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران جیکسن کے مخالفین نے ان کی حیثیت گھٹانے کے لیے انہیں گدھا، احمق اور بے وقوف کہنا شروع کر دیا۔