مقبوضہ وادی: کشمیریوں کا عزم جوان، بھارتی قابض فوج پریشان، مظاہرے، احتجاج

Last Updated On 04 October,2019 10:21 pm

سرینگر: (ویب ڈیسک) دو ماہ گزرنے کے باوجود بھی بھارتی قابض فوج کشمیریوں کے عزم کو توڑ نہ سکی، پوری وادی میں سخت سکیورٹی کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد نے قابض فوج اور مودی سرکار کیخلاف احتجاج کیا اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ بھارت کی قابض فوج نے شہریوں کو مسلسل 9ویں نماز جمعہ ادا نہ کر دی۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نوجوانوں کی بڑی تعداد نے سخت سکیورٹی کے باوجود احتجاج کیا، اس احتجاج کے باعث بھارتی قابض فوج بے بس ہو کر رہ گئی، یہ احتجاج سرینگر، بڈگام، گندربل، اسلام آباد، پلوامہ، کولگام، شوپیاں، بانڈی پورہ، بارہمولا، کپواڑہ سمیت دیگر علاقوں میں زبردست احتجاج کیا گیا۔

نوجوانوں کی بڑی تعداد احتجاج کے دوران ہند مخالف اور آزادی کے حق میں نعرے لگاتی رہی۔ اس دوران قابض فوج نے مظاہرین پر پیلٹ گنز اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا جس کی وجہ سے متعدد نوجوان زخمی بھی ہوئے۔

 

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی قابض سرکار کی طرف سے مساجد بند رکھی گئیں، بند ہونیوالی مساجد میں سرینگر کی تاریخی جامعہ مسجد، درگاہ حضرت بل، دستگیر صاحب اور چرار شریف کو بند رکھا گیا، مساجد بند ہونے کے باعث شہریوں کو مسلسل 9 ویں نماز جمعہ ادا نہ کر دی گئی۔

اُدھر بھارتی قابض پولیس نے مزید چار حریت رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں مذہبی سکالر بھی شامل ہیں۔ ان کی گرفتاری کشتواڑ اور ڈوڈا سے عمل میں لائی گئی۔

بھارتی پولیس نے گھر گھر سرچ آپریشن کے دوران تحریک حریت کے رہنما نور محمد ملک الیاس فیاض ملک، مذہبی رہنما اور مقامی مسجد کے امام منظور احمد غنی، ایک سرکاری ٹیچر فاروق احمد بٹ اور نوجوان منصور احمد کو گرفتار کیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ان چاروں رہنماؤں کو آزادی کے حق میں آواز اور بھارتی فوج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کیخلاف صدا بلند کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ کشتواڑ اور ڈوڈا کے اضلاع میں چار روز کے دوران 20 کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دوسری طرف مقبوضہ وادی کے لوگ دو ماہ سے زائد عرصے گزر جانے کے باوجود محصور ہیں، پابندیوں کا تسلسل جاری ہے، موبائل فون، انٹر نیٹ، لینڈ لائن سمیت دیگر سہولیات پر پابندی ہے۔ پوری وادی میں انٹرنیٹ کی بندش سے طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، صحافی اور دیگر شعبہ ہائے سے زندگی رکھنے والے لوگ بھی قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ سختی کے باعث تاحال دکانیں، مارکیٹیں بند ہیں، تاجروں کو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث سڑکوں پر ویرانی چھائی ہوئی ہے۔

دریں اثناء بھارتی قومی تحقیقاتی ادارے نے دہلی ہائی کورٹ میں سینئر حریت رہنماؤں کیخلاف چارج شیٹ فائل کر دی ہے، ان حریت رہنماؤں میں محمد یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی اور مسرت عالم بٹ شامل ہیں۔ ان کیخلاف 2017ء سے جعلی کیس بنایا گیا ہے۔ اس کسی میں حریت رہنماؤں کے خلاف یہ دوسری چارج شیٹ ہے۔ نئی دہلی ہائیکورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج راکیش سیال اس کیس کو رواں ماہ کی 23 تاریخ کو سنیں گے۔

مقبوضہ کشمیر میں جہاں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے 5 اگست سے لیکر اب تک جہاں عام لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں وہیں بھارتی فوجی بھی تیزی سے نفسیاتی مریض بننے لگے ہیں۔ قابض فوج میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے ۔ فوجیوں کو شدید بے یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے۔

ایک فوجی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں والدہ کا انتقال ہوگیا لیکن آخری رسومات میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح بہت سے مزید فوجیوں نے شکایت کی کہ ان کی چھٹیوں کی درخواستیں منظور نہیں کی جارہی ہیں۔

سرینگر میں تعینات ایک فوجی نے بتایا کہ اس کی شادی کی تاریخ ستمبر میں طے تھی لیکن اس کو شادی کے لئے بھی چھٹی نہیں دی گئی۔ اس طرح کے واقعات سے فوج میں نچلی سطح کے اہلکاروں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔

مزید برآں نئی دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالبعلموں نے بھارتی وزیر جیتندر سنگھ کی تقریب کے دوران کشمیر کے حق میں نعرے لگائے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کیخلاف طلبہ نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کنونشن کے دوران جو بلند شگاف نعرے لگائے ان میں ’’کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے‘‘، ’’کشمیر بھارتیوں کی آبائی ملکیت نہیں ہے‘‘۔

اُدھر بھارتی صحافی ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ دور حاضر کی دنیا میں مقبوضہ کشمیر بھارتی قابض فوج کے زیر تسلط سب سے بڑا علاقہ ہے جہاں پر لوگ اپنے حقوق کے لیے گزشتہ 70 سالوں سے لڑ رہے ہیں۔