لاہور: ( روزنامہ دنیا) سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی صورت میں وہ تیل کی عالمی مانگ کو پورا کر سکتا ہے۔ امریکہ مختلف ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدیں مگر ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ سعودی عرب کے پاس کتنا تیل موجود ہے۔
گزشتہ پانچ دہائیوں سے اس سوال کا جواب تیل کے ذخائر کے ماہرین کے لیے ایک راز ہے۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے 2015 کے اندازوں کے مطابق سعودی عرب کے پاس 266 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو سعودی عرب کا تیل آئندہ 70 سالوں میں ختم ہوگا۔ اس حساب کے لیے اوسطً روزانہ 12 لاکھ بیرل کے استعمال کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1987 میں سعودی عرب نے اپنے ذخائر کی تعداد کے بارے میں کہا تھا کہ وہ 170 ارب بیرل ہیں تاہم 1989 میں اس نے اس تخمینے کی تعداد بڑھا کر 260 ارب بیرل کر دی تھی۔
2016 کے ر یویو آف ورلڈ انرجی کے مطابق سعودی عرب اب تک 94 ارب بیرل تیل فروخت کر چکا ہے۔ تاہم اس کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس کے پاس اب بھی 260 سے 265 ارب بیرل تیل موجود ہے۔ اگر حکومتی اطلاعات درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو سعودی عرب نے تیل کے نئے ذخائر دریافت کئے ہیں یا پھر موجودہ ذخائر کا دوبارہ جائزہ لے کر انہیں تبدیل کر دیا ہے۔ ذخائر میں اضافے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جن ٹھکانوں سے تیل برآمد ہو رہا ہے ، وہیں اور تیل نکل آیا ہے یا وہ کنویں پھر سے بھر گئے ہیں۔
سعودی عرب میں 1936 سے 1970 کے درمیان تیل کے بے شمار ذخائر دریافت ہوئے۔ اس کے بعد قدرے نئی دریافتیں نہیں ہوئیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں جہاں تیل کی پیداوار ہو رہی ہے اس کی تفصیلات یا ذخائر کے بارے میں حکومت ہر بات خفیہ رکھتی ہے اور اس کی تفصیل کچھ ہی لوگوں کو معلوم ہوتی ہے ایسے میں کسی بھی بات کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ ماہرین بھی یہ بات یقین سے نہیں بتا سکتے کہ سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کب کم ہونی شروع ہوگی۔ تیل کے ذخائر کا تخمینہ لگانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ پیداوار شروع ہونے سے پہلے کتنے ذخائر موجود تھے۔ اس اندازے کو او او آئی پی کہا جاتا ہے۔
1970 کی دہائی میں اس بات پر اتفاق رائے موجود تھا کہ سعودی عرب میں 530 ارب بیرل او او آئی پی موجود تھے۔ سعودی او او آئی پی کے بارے میں معلومات سعودی عرب اور امریکہ کی مشترکہ آئل کمپنی آرمکو کے لیے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے عالمی معاشی پالیسی نے دی تھیں۔ اس وقت آرمکو چار امریکی کمپنیوں ایگزون، ٹیکسیکو، شیل اور موبل کی شراکت دار تھی۔ 1979 میں پیش کی جانے والی معلومات وہ آخری موقع تھا جب عوامی پس منظر پر یہ معلومات جاری کی گئیں تھیں تاہم مکمل او او آئی پی ذخائر کو پیداوار میں لانا ممکن نہیں ہوتا اس کی وجہ تکنیکی ہے۔ تیل کے او او آئی پی ذخائر کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔
پہلی تو واضح ذخائر ہوتے ہیں جن کے بارے میں تخمینے سب سے زیادہ درست ہوتے ہیں۔ اس میں سے آپ تقریباً 90 فیصد حاصل کر لیتے ہیں۔دوسری قسم ممکنہ ذخائر کی ہوتی ہے ان کے حوالے سے امید اور اندازے ہوتے ہیں اور ان میں اندازوں کا 10 فیصد ہی نکالا جاتا ہے۔ امریکہ کی کمپنی آرمکو نے 1970 کی دہائی کے آخری سالوں میں سعودی عرب کے تیل کے مستند ذخائر 110 ارب بیرل بتائے تھے اس کے ساتھ ہی مستقبل اور ممکنہ ذخائر بلترتیب 178 ارب بیرل اور 248 ارب بیرل بتائے تھے۔ ایسے میں سوال اٹھنے لگا کہ کیا سعودی عرب نے تیل کے ذخائر کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لیے ممکنہ ذخائر کو حقیقی ذخائر بتا دیا ؟۔ سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کتنے ہیں اور کب تک چلیں گے، یہ اب بھی ایک راز ہے۔