لاہور: (روزنامہ دنیا) کپواڑہ کی لولاب ویلی سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ منان وانی کو قریب سے جاننے والے بھی گزشتہ برس جنوری میں حیران ہوگئے جب انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی پروگرام ادھورا چھوڑ کر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی راہ لی اور یہاں مسلح ہوکر سوشل میڈیا پر اعلان کر دیا کہ وہ حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے ہیں۔
منان وانی کا آبائی ضلع کپواڑہ لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہونے کے باعث فوجیوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سائنس کے طالب علم تھے لیکن تاریخ، مذاہب اور سیاسی مزاحمت سے متعلق بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ وہ اپنے مضامین میں امریکی شہری حقوق کے رہنما میلکم ایکس اور دیگر سیاہ فام مزاحمتی رہنماؤں کے حوالے دیا کرتے تھے۔ انھوں نے کئی طویل مضامین لکھے، جن کی اشاعت پر انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی مقامی نیوز ایجنسی کرنٹ نیوز سروس کے خلاف پولیس میں مقدمہ بھی درج ہوا اور سروس کی ویب سائٹ سے منان کا مضمون بھی ہٹایا گیا۔ انہیں چند سال قبل بھوپال یونیورسٹی میں عالمی کانفرنس کے دوران بہترین مقالہ کے لیے ایوارڈ دیا گیا تھا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق وہ نہایت خالص خیالات پر مبنی تحقیق کے قائل تھے۔ انھوں نے ہتھیاروں کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی تھی لیکن ان کے دانشورانہ قد کی وجہ سے انہیں حزب میں کمانڈر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔
منان اُس طویل فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جس میں ایسے متعدد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے کیرئیر کو ادھورا چھوڑ کر بندوق تھام لی۔ منان وانی کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موجودہ قدغنوں سے ہی نہیں بلکہ کشمیر سے متعلق تاریخ کو فراموش کروانے کی سرکاری کوششوں پر نالاں تھے۔ ان میں سے ایک مضمون میں منان لکھتے ہیں، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی نگرانی کرنے کے لیے جاسوس مامور کیے گئے ہیں، طلبا کے لیے اظہار رائے پر پابندی ہے اور ان کے بھی پیچھے جاسوس لگے ہیں، پوری آبادی محصور ہے، قوانین بنائے جاتے ہیں تاکہ سرکاری ملازمین حکومت کی پالیسیوں کی تنقید نہ کرسکیں، اس ساری صورتحال پر وہ لوگ کیا کہیں گے جو سمجھتے ہیں کہ جموں وکشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ منان وانی کی ہلاکت کے بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں وہ سب نہیں ہوا جو دو سال قبل برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ برہان کی ہلاکت نے وہاں احتجاج، مسلح مزاحمت اور مظاہروں کی نئی تحریک چھیڑ دی تھی۔ لیکن منان کی ہلاکت پر نہ صرف ہند نواز حلقے پریشان ہیں بلکہ سکیورٹی اداروں کے بعض افسروں کو بھی خدشہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بغاوت کی لہر پیدا ہوسکتی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے منان کی ہلاکت کو قومی نقصان قرار دیا۔ آئی اے ایس افسر شاہ فیصل نے ٹویٹ کیا: منان وانی ایک نوجوان قائد تھا۔ ہمیں اس کی ضرورت تھی، کاش اس نے تشدد کا راستہ اختیار نہ کیا ہوتا۔ کیا ہوگا اگر وہ سب لوگ جو کشمیر پر مرنا چاہتے ہیں جینے کا فیصلہ کریں۔ کوئی تو بات کرے، اس جنگ کو ختم ہونا ہوگا۔
کپواڑہ کے رکن اسمبلی انجینئر رشید نے اپنے ردعمل میں کہا : منان کی قلم بندوق سے خاموش کر دی گئی، اور اس طرح نئی دلی نے منان کے قیمتی افکار کے آگے سرنڈر کر دیا۔ خفیہ پولیس کے ایک افسر نے بتایا: منان وانی کی ہلاکت بے شک ایک بڑی کامیابی ہے۔ لیکن اس ہلاکت کے بعد منان کی شخصیت اور ان کا نصابی ریکارڈ تعلیمی اداروں میں بغاوت کے بیچ بوئے گا، جو ہمارے لئے تشویش کی بات ہے۔ واضح رہے دو سال قبل برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک متعدد تعلیم یافتہ نوجوانوں اور سکالرز سمیت 600 نوجوان مسلح ہوکر بھارتی فورسز کے خلاف برسرپیکار ہوگئے ہیں جن میں سے اب تک کم از کم 300 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اس قدر تشویشناک ہے کہ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی کہا کہ اب کشمیریوں کو پاکستان کی ضرورت نہیں کیونکہ اب وہ پولیس اور فورسز اہلکاروں کی بندوق چھین کر جنگل میں پناہ لیتے ہیں اور فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ کالم نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں: یہ عسکریت پسندی عددی اور صلاحیتوں کے اعتبار سے بھارتی فورسز کے لیے بڑا چیلنج نہیں ہے لیکن فکری اعتبار سے یہ بھارت کی شکست ثابت ہو رہی ہے کیونکہ اب ہندنواز حلقے بھی نئی دلی سے ناراض ہورہے ہیں، کجا کہ کوئی بھارتی موقف کا پرچار کرتا۔ منان وانی کے پڑوسی اور دوست نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا: منان وانی اُس گھٹن کو محسوس کر رہے تھے جو ہم سب کا مقدر بن گئی ہے۔ انہوں نے لکھنا چاہا لیکن وہاں بھی قدغن۔ ان کا مسلح ہونا یہ دکھا رہا ہے کہ قلم روکو گے تو وہی قلم بندوق بن جائے گی۔