بیسویں صدی کو انسانی تاریخ کی خوں ریز اور خوب تر صدی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس صدی میں عظیم عالمی جنگوں کے بعد تباہی و بربادی اور پھر زندگی کے مختلف شعبہ جات میں حیران کن تبدیلیوں اور ترقیات کا ظہور ہوا۔
لاہور: (دنیا نیوز) پہلی جنگِ عظیم کا آغاز اگست 1914ء میں ہوا۔ اس میں ایک طرف جرمنی تھا اور دوسری طرف اتحادی افواج۔ یہ جنگ دوسری جنگ عظیم کا باعث بنی جو اپنے دامن میں پہلے سے بھی زیادہ تباہی و بربادی لے آئی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں انگلستان اور فرانس کی سلطنتیں اپنے عروج پر تھیں اور انہوں نے بڑے کشت و خون کے بعد دنیا کے ایک بڑے حصے کے آپس میں حصے بخرے کر لیے تھے۔ تمام دنیا میں ان کی تجارت کی منڈیاں قائم ہو گئیں جہاں ان کا مال بکثرت فروخت ہونے لگا۔ اس تجارت کی بدولت یہ ممالک مالا مال ہو گئے۔ لیکن انیسویں صدی کے وسط میں اٹلی اور جرمنی میں طاقتور سلطنتیں قائم ہوئیں تو وہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ بھی انگریزوں اور فرانسیسیوں کی طرح نو آبادیاں اور مقبوضات حاصل کریں۔ لیکن اس وقت تک انگریز اور فرانسیسی دنیا کے ہر بڑے حصے پر قابض ہو چکے تھے۔
اٹلی اور جرمنی جیسے ممالک کے لیے نو آبادیاں اور مقبوضات حاصل کرنے کا موقع بہت کم رہ گیا تھا۔ اس لیے اٹلی اور جرمنی کے لوگوں کے دلوں میں حسد اور رقابت کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ انگریزوں اور فرانسیسیوں سے ان کی نو آبادیاں اور مقبوضات چھین لینے کی تیاری کرنے لگے تا کہ وہ ان ممالک میں تجارتی منڈیاں قائم کر سکیں۔ چنانچہ نو آبادیوں اور تجارت کے لیے رقابت ان ممالک کے درمیان جنگ کا باعث بن گئی۔ اس کے علاوہ 1870ء کی جنگ میں جرمنی نے فرانس کو شکست دے کر اس کے دو صوبے آل سیس اور لورین چھین لیے تھے۔ یہ کانٹا فرانسیسیوں کے دل میں اسی وقت سے کھٹک رہا تھا اور وہ اپنے کھوئے ہوئے صوبے دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ چنانچہ یہ بات بھی 1914ء کی جنگ کے لیے بہانہ بن گئی۔ 1870ء سے لے کر 1914ء تک یورپ میں تقریباً بالکل امن کا زمانہ تھا۔
انگریز اپنی وسیع سلطنت کو مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ لہذا وہ یورپ کے معاملات میں دخل انداز نہیں ہوتے تھے بلکہ ’’علیحدگی‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ رفتہ رفتہ یورپ دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ 1882ء میں جرمنی کے وزیر بسمارک نے آسٹریا اور اٹلی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس اتحاد کو اتحاد ثلاثہ کہا جاتا ہے۔ اس اتحاد سے جرمنی کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ جرمنی کا بڑھتا ہوا اقتدار انگلستان کی تجارت اور مقبوضات کے لیے خطرے سے خالی نہ تھا۔ اس لیے اس نے ’’علیحدگی‘‘ اور امن پسندی کی پالیسی ترک کر دی اور اپنی مقبوضات اور نوآبادیوں کی حفاظت کے لیے فرانس اور روس سے اتحاد کر لیا۔ جنگ کا فوری سبب یہ تھا کہ آسٹریا کے ولی عہد کا قتل ہو گیا۔ وہ اپنی بیوی کے ہم راہ سرویا کی سیروسیاحت میں مصروف تھا کہ اسے اور اس کی بیوی کو قتل کر دیا گیا۔ تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ اس قتل کی تہہ میں سرویا کی حکومت کا ہاتھ ہے۔ اس پر آسٹریا انتقام کے جذبے سے بے قابو ہو گیا اور اس نے سرویا کی حکومت سے بعض سخت مطالبات کیے جو مسترد کر دیے گئے۔ جس پر آسٹریا نے سرویا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
اگر معاملہ سرویا اور آسٹریا تک محدود رہتا تو شاید اس قدر خوں ریزی نہ ہوتی لیکن یورپی اقوام نے اپنے تجارتی اور ملکی مفاد کی خاطر ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور یوں تمام یورپ میں کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ فرانس، انگلستان اور روس تینوں سرویا کے ساتھ مل گئے۔ دوسری طرف جرمنی نے آسٹریا کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس طرح 28 جولائی 1914ء کو پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں اٹلی غیر جانبدار تھا لیکن پھر وہ نہ رہا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ترکی جرمنی کے ساتھ شامل ہو گیا اور ایک سال بعد بلغاریہ بھی جرمنی کے ساتھ مل گیا۔ یوں جنگ عالم گیر ہو گئی۔
بلجیم پر حملہ جرمنی کی جنگی چال تھی کہ سب سے پہلے فرانس کو تباہ و برباد کیا جائے۔ اس کے بعد روس کے خلاف قدم بڑھایا جائے اور آخر میں برطانیہ سے فیصلہ کن جنگ کی جائے۔ چنانچہ اس نے تھوڑی سی فوج روسیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے روسی سرحد کی طرف روانہ کر دی۔ لیکن فرانس کے خلاف اس نے اپنا تمام تر زور لگا دیا۔ پیرس پہنچنے کا راستہ بیلجیم سے گزرتا تھا اور بیلجیم بالکل غیر جانبدار تھا۔ مگر جرمنی نے اس کی غیر جانبداری کی پروا نہیں کی اور اس کی فوج اس ملک میں گھس گئی اور اپنے پاؤں تلے روند کر فرانس کی طرف بڑھنے لگی۔ اس پر انگریزوں نے جرمنوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے اپنی فوجوں کو بیلجیم کی طرف روانہ کر دیا۔ ان کی پروا کیے بغیر جرمن فوج آگے بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ وہ پیرس سے صرف بارہ میل کے فاصلے پر پہنچ گئی اور یہاں پہنچ کر اس کی پیش قدمی رک گئی۔
ستمبر 1914ء میں جرمنوں اور اتحادیوں کے درمیان ایک خوں ریز جنگ ہوئی جسے مارن کی جنگ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں جرمنوں نے شکست کھائی اور وہ پیرس پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ بلکہ وہ پیرس سے بہت پیچھے ہٹ گئے۔ اس فتح سے فرانس کا باقی حصہ جرمنوں کے قبضے سے بچ گیا۔ یہ جنگ مزید چار سال جاری رہی اور اس کا اختتام جرمنی کی شکست کی صورت میں ہوا۔ اس جنگ میں جرمنی اوراس کے اتحادیوں کے 43 لاکھ سے زائد فوجی مارے گئے جبکہ دوسری جانب فوجی ہلاکتوں کی تعداد 55 لاکھ سے زائد رہی۔
(یہ تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی)