لاہور: (محمد علی) ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بچوں کیلئے بہت سے مواقع لے کر آئی ہے تاہم اس کی تیز رفتار ترقی، تبدیلی اور غیرمعمولی پہنچ سے بچوں کیلئے بہت سے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔
بچوں کی سمگلنگ، جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، ان کی تصاویر اور ویڈیو کے غلط استعمال، جنسی بدسلوکی پر مبنی مواد کی تیاری، بلیک میلنگ اور بچوں کے خلاف بدسلوکی کا ارتکاب عام ہو گیا ہے۔
بچوں کی سمگلنگ، جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر ماما فاطمہ سنگھاتا کے مطابق ڈیپ فیک، تصاویر کو جعلسازی سے برہنہ دکھانے اور ان میں عمر کو گھٹا اور بڑھا کر ظاہر کرنے کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، مواد کو سرور کے بغیر براہ راست ایک دوسرے تک منتقل کرنے اور ویڈیو میں آواز کو تبدیل کرنے جیسے طریقوں سے بھی بچوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ صورتحال مزید بگڑ جانے کا اندیشہ ہے، اس کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کی پامالی کے واقعات بڑھ جائیں گی اور غیرمحفوظ اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے اس سے زیادہ متاثر ہوں گے، بین الاقوامی ڈیجیٹل معاہدہ آن لائن دنیا میں سبھی لوگوں اور خاص طور پر بچوں کو تحفظ دینے کیلئے حکومتوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اقدامات کے حوالے سے عالمگیر عزم کو تقویت دیتا ہے۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے چائلد لائٹ گلوبل چائلڈ سیفٹی انسٹیٹیوٹ کے محققین کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں بغیر مرضی کے لی گئی اور جنسی نوعیت کی 30 کروڑ سے زائد تصاویر کے آن لائن شیئر کئے جانے کے واقعات ہوئے۔
چائلڈ لائٹ انسٹیٹیوٹ کے چیف ایگزیکٹو Paul Stanfield کے مطابق بچوں کا استحصالی مواد اتنا زیادہ ہے کہ نگران تنظیموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی کوئی نہ کوئی فائل ہر سیکنڈ میں مل رہی ہے، یہ مسئلہ ایک عالمی وبا کی شکل اختیارکر چکا ہے جو ایک طویل عرصے سے چھپا ہوا تھا، یہ ہر ملک میں ہے اور مسلسل پھیل رہا ہے اور اس کیلئے خلاف ایک عالمی ردعمل درکار ہے۔
بچوں کو آن لائن استحصال سے محفوظ رکھنے کیلئے کیا کریں؟
والدین کیلئے پہلا مشورہ یہ ہے کہ چوکنا رہیں اور شروع میں ہی مسئلے پر توجہ دیں، اس کیلئے گھر کی سطح پر ڈیجیٹل تحفظ کے متعلق گفتگو کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنا ضروری ہے، اپنے بچوں کا بھروسا حاصل کریں اور انہیں آن لائن خطرات سے آگاہ کریں، اگر بچے بڑے ہو رہے ہیں تو بھی گفتگو کے اس عمل کو نہ روکیں، بچوں کو سننے پر توجہ دیں مگر اس معاملے پر گفتگو کو جاری رکھیں کیونکہ یہ اعتماد کی بنیاد بنتی ہے اور سب سے اہم یہ کہ شرم اور جھجھک کو دور کردیں۔
بچہ اکثر اسی وقت خود کو بہت مشکل حالات میں پاتا ہے جب وہ بالکل اکیلا محسوس کرتا ہے، والدین کو علم ہونا چاہیے کہ آن لائن مجرموں کا ایک طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ بچے کو الگ تھلگ کرتے ہیں تاکہ وہ خاموش رہے، وہ اسے بلیک میل کریں گے، والدین اور سماجی خوف دلائیں گے، آپ کو ایسی صورتحال میں اپنے بچوں کا ساتھ دینا ہوگا۔
یاد رکھیں کہ شرم اور بے عزتی وہ سب سے اہم وجہ ہے جن کے سبب آن لائن جنسی استحصال کے شکار بچے مدد نہیں لے پاتے، لیکن یہ واضح ہے کہ ایسی صورتحال میں بچے نہیں بلکہ اصل مجرم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچوں کی مرضی کے بغیر ان کی تصاویر انٹرنیٹ پر ڈالیں اور پھر دھمکیاں دیں، ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔