ستائیسویں ترمیم کیوں ضروری ہے؟

Published On 31 October,2024 01:43 pm

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملک میں اب ستائیسویں آئینی ترمیم کی باتیں ہونے لگی ہیں، حکومت اور اس کے اتحادیوں کی اس پر مشاورت بھی ہوئی ہے مگر ستائیسویں ترمیم کرنے سے متعلق ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

اگرچہ وزیر قانون سمیت کئی حکومتی شخصیات ستائیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تردید کر چکے ہیں مگر 26 ویں ترمیم میں ایسے نقائص موجود ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے، حکومتی تردیدوں کے باوجود اپوزیشن ستائیسویں آئینی ترمیم کی مزاحمت کی بات کر رہی ہے، اپوزیشن یہ سمجھ رہی ہے کہ شاید ستائیسویں ترمیم میں وہ تمام شقیں دوبارہ شامل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے جنہیں مولانا فضل الرحمن ’کالا ناگ‘ قرار دے رہے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں واقعی ایسے نقائص موجود ہیں جنہیں دور کئے بغیر آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

ایک بحران تو چیف جسٹس کے تقرر کے دوران بھی پیدا ہو سکتا تھا، مستقبل میں یہ آئینی رسک خطرناک صورتحال پیدا کر سکتا ہے، آئین کے آرٹیکل 175 اے میں چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا اور اس کیلئے شرط رکھ دی گئی کہ چیف جسٹس کیلئے تقرر کیلئے پارلیمانی کمیٹی کم از کم دو تہائی اکثریت سے فیصلہ کرے گی، اس شق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر دو تہائی اکثریت پوری نہ ہو تو اس کا حل کیا ہے۔

اس میں وقت کی قید ضرور رکھی گئی ہے کہ نئے چیف جسٹس کے تقرر سے تین روز قبل یہ عمل مکمل کرنا ہے مگر دو تہائی اکثریت پوری نہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کا حل تجویز نہیں کیا گیا، یوں پارلیمانی کمیٹی میں اختلاف رائے کی صورت میں مستقبل میں چیف جسٹس کی تقرری کا عمل ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ سے متعلق بحرانی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔

دوسرا معاملہ بھی آرٹیکل 175 اے سے متعلق ہے جس میں 13 رکنی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تشکیل ابہام کا شکار ہے، جوڈیشل کمیشن نے آئینی بینچز تشکیل دینے ہیں مگر اس کمیشن کی اپنی تشکیل ہی قانونی اور آئینی پیچیدگی کا شکار ہو چکی ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کی یہ خامی دور کئے بغیر آئینی بینچز نہیں بن سکتے، اس خامی نے بھی ایک بحرانی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ وہ تمام کیسز جو سپریم کورٹ کے اختیار سے لے کر آئینی بینچز کے حوالے کر دیئے گئے ان پر کارروائی رُک چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ جہاں آئینی ترمیم کی کئی شقوں پر فوری عمل ہو چکا مگر اس انتہائی اہم معاملے پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 13 رکنی جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج صاحبان، آئینی بینچز کے سینئر ترین جج صاحب، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل پاکستان، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ، حکومت اور اپوزیشن سے دو دو اراکین، پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکر کی نامزد کردہ ایک خاتون یا غیر مسلم جو سینیٹ کا رکن بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔

حیران کن طور پر جوڈیشل کمیشن میں آئینی بینچز کے سینئر ترین جج کو رکن بنا دیا گیا مگر ابھی تک آئینی بینچز کا اپنا وجود ہی عمل میں نہیں آیا، ایسے میں اس رکن کے بغیر جوڈیشل کمیشن کی آئینی حیثیت پر سوالات اُٹھ سکتے ہیں اور معاملات عدالتوں میں جا سکتے ہیں، یعنی آئینی بینچ کے جس سینئر ترین جج کا تقرر خود جوڈیشل کمیشن نے ابھی کرنا ہے اسے جوڈیشل کمیشن کا رکن بنانے کی شرط بھی رکھ دی گئی ہے۔

کچھ آئینی ماہرین کے خیال میں چونکہ آئینی بینچز بن ہی نہیں سکتے تو پہلے سے موجود بینچز کو ہی آئینی نوعیت کے کیسز اس وقت تک سننے ہوں گے جب تک کہ آئینی بینچز کی تشکیل عمل میں نہ لے آ جائے، ان دو بڑی خامیوں کو دور کرنے کیلئے آج نہیں تو کل آئینی ترمیم کرنا ہی ہوگی۔

جب 26 ویں آئینی ترمیم ہو رہی تھی تو کئی حلقوں خاص طور پر اپوزیشن نے اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ یہ سب کچھ جلد بازی میں ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، وہی ہوا جس کا ڈر تھا، آئینی ترمیم ہونے کے چند ہی روز میں صورتحال عیاں ہوگئی۔

وزارت قانون و انصاف نے اس صورتحال پر ایک وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے (2) کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان 13 اراکین پر مشتمل ہے، کمیشن اپنے پہلے اجلاس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچز کی تشکیل کیلئے ججوں کو نامزد کرے گا اور نامزد ججوں میں سے سینئر ترین جج آئینی بینچز کا سب سے سینئر جج ہوگا، آئینی بینچز کا سینئر جج اگر پہلے ہی بطور سپریم کورٹ جج کمیشن کا رکن ہے تو آئینی بینچز کا اگلا سینئر جج کمیشن کا رکن بن جائے گا۔

ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ کمیشن کی طرف سے لیا گیا کوئی فیصلہ صرف اس بنیاد پر باطل نہیں ہو سکتا کہ کمیشن میں کوئی آسامی خالی ہو یا اس کا کوئی رکن غیر حاضر ہو، وزارت قانون کی وضاحت آنے کے باوجود صورتحال اتنی سادہ بھی نہیں جتنی حکومت کی قانونی ٹیم بتانے کی کوشش کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک آئینی بینچز کی تشکیل کا معاملہ التوا کا شکار ہے۔

جہاں ایک جانب اعلیٰ عدلیہ نے فل کورٹ اجلاس کے ذریعے بڑا واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ایک پیج پر ہیں اور صورتحال چند ہفتوں پہلے جیسی نہیں ہے وہیں حکومت سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کیلئے بڑا اقدام کرنے جا رہی ہے، حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ان ججز کا تقرر بھی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا جہاں صرف سادہ اکثریت درکار ہے۔

جوڈیشل کمیشن میں یوں تو حکومت کے پاس 13 میں سے 6 اراکین کی سپورٹ موجود ہے اور انہیں اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کیلئے مزید ایک رکن کی ضرورت ہو گی، حکومت مزید ایک رکن کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے، جو کہ اس کا دعویٰ بھی ہے، تو سپریم کورٹ میں آئینی بینچز میں حکومت کی مرضی کے جج صاحبان شامل ہوں گے۔

یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ موجودہ جج صاحبان جو ایک پیج پر ہونے کا پیغام دے رہے ہیں اس صورتحال پر آئینی اور قانونی طور پر کیسا ردعمل دیتے ہیں، کیونکہ حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کیلئے ایک کے بعد ایک اقدام اٹھا رہی ہے۔