لاہور: (قیوم نظامی) برصغیر پاک و ہند کے ہلال آسمان پر جو نام لعلِ یمن و بدخشاں کی طرح منور ہے اسے قائد اعظم محمد علی جناح ؒکہتے ہیں، کائناتِ ماہ و انجم، ان کا نام سنتے ہی تبسم ریز ہو جاتے ہیں، ان کے عزم و استقلال اور جہد مسلسل کے سامنے سیارگان فلک کروٹیں بدلتے ہیں۔
قدرت نے محمد علی جناحؒ کو سوغاتِ فراست سے مالا مال فرمایا، ان کے شیریں لب دلوں کو مسخر کرتے رہے، عقل و خرد کی رفعتوں کے سامنے مخالف قوتیں سرنگوں ہو جاتی تھیں۔
محمد علی جناحؒ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، جناحؒ کی ابتدائی تعلیم غیر رسمی تھی، ایک اُستاد ان کے گھر آ کر انہیں گجراتی زبان سکھاتا جو ان کی مادری زبان تھی، اقلیمِ عرفان و علم کے بل بوتے پر محمد علی جناحؒ نے تعلیمی مراحل بڑی کامیابی سے طے کئے، 1892ء میں لندن روانگی سے پہلے جناحؒ کی والدہ نے اپنے بیٹے کی شادی ایمی بائی سے کر دی، اس وقت جناحؒ کی عمر 16 سال تھی۔
برطانیہ کے بارے میں جناحؒ نے اپنے پہلے تاثرات ان الفاظ میں بیان کئے، ’’میرے لیے برطانیہ ایک اجنبی ملک تھا اور میں ماحول سے آشنا نہ تھا، میں کسی شخص کو نہیں جانتا تھا، لندن کی دھند اور سردی نے مجھے سخت پریشان کیا مگر میں بہت جلد اس کا عادی ہوگیا اور بہت خوش رہا‘‘۔
جناحؒ فرصت کے وقت برٹش میوزیم لائبریری جاتے اور نامور شخصیات کی سوانح عمریاں پڑھتے، ان کتب نے جناحؒ کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
جناحؒ نے انسانی زندگی کی کامیابی کے بارے میں ایک بار خود فرمایا ’’کردار، جرأت، محنت اور استقلال یہ چار ستون ہیں جن پر انسانی زندگی کی پوری عمارت تعمیر ہو سکتی ہے، ناکامی ایک ایسا لفظ ہے جس سے میں واقف نہیں ہوں‘‘۔
جناحؒ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور محنت سے وکالت میں نام پیدا کیا اور ایک نامور وکیل کی حیثیت سے ہندوستان کی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی، وہ 1897ء میں انجمن اسلام کے رکن بن گئے، اس وقت بمبئی ہائیکورٹ کے جج بدر الدین طیب جی انجمن اسلام کے صدر تھے، جناحؒ کانگریس سے بہت متاثر تھے لہٰذا وہ کانگریس کی سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوتے رہے، 30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا جس کا سیاسی نظریہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ تھا۔
جناحؒ 4 جنوری 1910ء میں پہلی بار بمبئی سے امپیریل لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اس وقت ان کی عمر 33 سال تھی، جناحؒ نے 17 مارچ 1911ء کو اسمبلی میں مسلم وقف علی الاولاء بل پیش کر کے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں شہرت حاصل کر لی اور مسلمانوں کے شرعی حقوق کیلئے عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا، اس بل کی منظوری کے بعد مسلم لیگ نے انہیں اپنے اجلاسوں میں دعوت دینا شروع کر دی۔
ہندوستان کے نیشنلسٹ لیڈر گوکھلے نے جناحؒ کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا، جناحؒ اور گوکھلے کے سیاسی نظریات میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی، دونوں لبرل اور نیشنلسٹ لیڈر تھے، جناحؒ نے ایک موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ’’میری ایک خواہش ہے کہ میں مسلمانوں کا گوکھلے بن جاؤں‘‘۔
جناحؒ مئی 1914ء میں لندن کے دورے کیلئے کانگریس وفد کے چیف ترجمان نامزد ہوئے اور 1916ء تک کانگریس اور مسلم لیگ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کی حیثیت میں مسلم لیگ اور کانگریس میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں میں شریک رہے، ان کی یہ کوششیں رنگ لائیں، 1916ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے لیڈروں کا مشترکہ اجلاس لکھنؤ میں ہوا جس کی صدارت جناحؒ نے کی۔
اس تاریخی اجلاس میں دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک معاہدے پر متفق ہوگئے جسے ’’لکھنو پیکٹ‘‘ کا نام دیا گیا،’’ لکھنو پیکٹ‘‘ کے بعد جناحؒ کا شمار ہندوستان کے مرکزی لیڈروں میں ہونے لگا، جناحؒ نے 29 جولائی 1917ء میں بمبئی میں ہوم رول لیگ کے اجلاس کی صدارت کی۔
جناحؒ رفتہ رفتہ کانگریس کی پالیسیوں سے بددل ہوتے جا رہے تھے، انہوں نے گاندھی کے سیاسی فلسفے سے اختلاف کیا، جناحؒ ہندوستان کی آزادی کیلئے آئینی اور جمہوری جدوجہد کے قائل تھے جبکہ گاندھی احتجاجی سیاست میں یقین رکھتے تھے۔
جناحؒ اصولی طور پر عدم تعاون کی حکمت عملی کے خلاف تھے،ان کا تحریک خلافت سے الگ رہنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، انہوں نے 28 دسمبر 1920ء کو کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی، جناحؒ نے امپیریل لیجسلیٹو کونسل سے بھی استعفیٰ دے دیا، وہ کچھ عرصہ سیاسی سرگرمیوں کے بجائے اپنی وکالت اور سوشل لائف میں زیادہ دلچسپی لیتے رہے، جناحؒ نے 1930ء میں اپنی تقریر میں کہا کہ ’’وہ ہندو مزاج، ہندو ذہنیت اور ہندو رویے سے اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ ہندو مسلم اتحاد پر ان کا یقین ہی ختم ہو گیا اور وہ لندن چلے گئے‘‘۔
معروف شاعر اور فلاسفر علامہ محمد اقبالؒ نے بھی لندن گول میز کانفرنس میں شرکت کی، انہوں نے جناحؒ سے ملاقاتیں کر کے انہیں باور کرایا کہ مسلمانان ہند قیادت کیلئے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں لہٰذا انہیں بھارت واپس آ کر مسلمانوں کی قیادت کرنی چاہئے، لیاقت، اقبال، بیگم شاہ نواز اور آغا خان کے اصرار پر جناحؒ ہندوستان واپس آ گئے اور انہوں نے مسلم لیگ کو منظم اور متحرک بنانے کیلئے نئے سیاسی سفر کا آغاز کر دیا، قائداعظم کی سیاسی جدوجہد مسلمانوں کے سیاسی و جمہوری حقوق کیلئے تھی، ان کی کوشش تھی کہ ہندوستان کے سیاسی لیڈر ایسے آئین پر متفق ہو جائیں جس میں مسلمانوں کے حقوق کا آئینی تحفظ شامل ہو۔
قائداعظمؒ انتہائی زیرک، مدبر اور دوربین سیاسی رہنما تھے، ان کے قلب و دماغ میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن حاصل کرنے کا عظیم مقصد سمایا ہوا تھا، انہوں نے اپنی پوری توجہ اس مقصد کے حصول پر مبذول رکھی اور سیکولر ازم، نیشنلزم، سوشلزم اور کمیونزم کی بحثوں سے مسلم لیگ کو الگ رکھا تاکہ مسلمان پاکستان کے بارے میں کنفیوژن کا شکار نہ ہوں۔
قائد اعظمؒ نے متحدہ ہندوستان میں برطانوی پارلیمانی، جمہوری، سیاسی و آئینی نظام کے عظیم قومی مقصد کی روشنی میں مخالفت کی کیونکہ متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں کی واضح اکثریت تھی لہٰذا برطانوی جمہوری نظام مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتا تھا، قائداعظمؒ کھرے ڈیمو کریٹ اور پارلیمانی جمہوریت کے حامی تھے۔
قائداعظم ؒپاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی بات کرتے تھے تو ان کے ذہن میں قلعہ کا تصور یہ تھا ’’پاکستان کا ایک اور بلند مقصد یہ ہے کہ یہ ایک ایسی بنیاد بنے گا جہاں پر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ مسلمان دانشوروں، تعلیمی، معاشی، ماہرین، سائنسدانوں، ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹیکنیکل ماہرین کو تربیت دے کر تیار کر سکیں جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے کام کر سکیں وہ مڈل ایسٹ اور دوسرے مسلم ملکوں میں پھیل جائیں گے تاکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کر سکیں اور ان کو بیدار کر سکیں۔
رعب دار وکیل کا روپ
جب آپؒ بطور قابل وکیل مشہور ہوئے اور مقدمات جیتنے لگے تو کسی قسم کا احساسِ کمتری نہ تھا، ایک بار جج کو للکار دیا، یہ بمبئی میں جناحؒ کے ابتدائی دور وکالت کی بات ہے، جسٹس مارٹن کی عدالت میں مقدمہ درپیش تھا، وہ وکیل صفائی تھے، اُن کی بحث کے دوران ایک نکتہ پر جج بھڑک اٹھا۔
مارٹن: ذہن میں رکھیں کہ آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہیں۔
جناحؒ: جناب والا! آپ کے روبرو بھی کوئی تھرڈ کلاس وکیل نہیں ہے۔
اِسی طرح جب 1900ء میں تین ماہ تک مجسٹریٹی کی اور مزید نوکری کی آفر سر اولینٹ نے پندرہ سو روپیہ کی دی تو جواب یوں دیا، ’’جناب والا اِس پیشکش کیلئے ممنون ہوں، لیکن میری خواہش تو ہے کہ اتنی رقم میں روزانہ کماؤں۔‘‘
2 لاکھ فیس ٹھکرا دی
ایک بار قائداعظمؒ کو ایک مقدمہ آیا دو لاکھ اس وقت فیس آفر ہوئی، چوں کہ محمد علی جناحؒ بیرسٹر اِس سے قبل جن لوگوں سے فیس حاصل کر چکے تھے ان مقدمات کی تیاری مقصود تھی اور اُن کو مایوس نہیں کر نا چاہتے تھے، مقدمے اور رقم سے انکار کر دیا۔ جب محمد علی جناحؒ کے دوسرے وکیل کو علم ہُوا تو اس نے بیرسٹر محمد علی جناحؒ سے انکار کی وجہ دریافت کی کہ اتنی بڑی رقم دو لاکھ کی آفر کو آپؒ نے ٹھکرا دیا، اصولوں کے بادشاہ، دیانت کے عظیم شاہکار محمد علی جناحؒ نے جواب مسکراہٹ سے دیا، ’’روپیہ بے معنی چیز ہے، یہاں ایک اُصول ہے، اگر میں اِس مقدمے کی تیاری کیلئے وقت نہیں نکال سکتا تو پھر یہ سراسر پیشہ کے ساتھ دھوکا ہے‘‘۔
قیوم نظامی معروف دانشور، صحافی اور سیاستدان ہیں، متعدد کتب کے مصنف ہیں، زیر نظر مضمون ان کی کتاب ’’قائداعظمؒ بحیثیت گورنر جنرل‘‘ سے مقتبس ہے۔