لاہور: (محمد اسامہ غوری) سالوں پرانا انتخابی نشان واپس لے لیا جانا آخری حربہ ہو سکتا ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنگ سے پہلے کسی فوجی سے وردی واپس لے کر سول کپڑے پہنائے جائیں تو بیچ میدان میں کیسے پہچانا جائے گا کہ وہ کس قافلے سے ہے ؟
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا نشان واپس لے لیا تو ایسے میں "لیول پلیئنگ" فیلڈ کی متلاشی تحریک انصاف کے لیے"فیلڈ" بچانا ہی بڑا چیلنج ہو گا، تحریک انصاف آج کل معتوب ہے مگر کس کے زیر اعتاب ہے یہ وہ سوال ہے جو ہرکس و ناکس کو دل و جان سے معلوم ہے مگر دل کی بات زبان پر کیسے لائی جائے؟
سوالوں کے گورکھ دھندے میں یہ سوال بھی آنکھیں اٹھائے کھڑا ہے کہ آخر کب تک تحریک انصاف معتوب رہے گی؟ مگر میرے جیسا ناقص العقل تو یہی سمجھتا ہے کہ جب تک ہواؤں کا رخ بدل کر سمت مخالف میں نہیں آ جاتا تب تک یونہی نشانات واپس لیے جائیں گے۔
یونہی پکڑ دھکڑ کر "سچ" اگلوائے جائیں گے، یونہی سر راہ چلتے زعما کو "نامعلوم" مگر معلوم مقامات کی سیر کروائی جائے گی، یونہی گھروں میں گھس کر خواتین کو زدو کوب کیا جائے گا، یونہی گلے ملنے والوں سے گلے پکڑنے تک کے واقعات چلتے رہیں گے۔
پاکستانی سیاست کی اپنی ڈائنامکس ہیں، اپنی سچائیاں ہیں اور اپنے زمینی حقائق ہیں، کھیل تو وہی پرانا ہے مگر اب کچھ چہرے نئے ہیں لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے جو پرانے چہرے موجود ہیں انہوں نے تاریخ کے دھارے سے کچھ نہیں سیکھا۔
وہی پرانے خیال، وہی پرانے چہرے اس پرانے کھیل یعنی "راہیں مسدود" کرنے اور کرانے میں برابر کے شریک ہیں، ایسا تاثر ہے کہ الیکشن سے پہلے سلیکشن ہو چکی ہے، ایسا ہی جیسے 2018 کے الیکشن سے پہلے کی گئی تھی مگر تب نواز لیگ زیر اعتاب تھی، آج "ایک پیج" والے معتوب ہیں۔
جمہوریت کے لیے وہ راستہ بھی خطرناک تھا جبکہ جمہوریت کے لیے یہ راستہ بھی زہر قاتل ہے مگر 2018 کی معتوب پارٹی اور آج کی تحریک انصاف میں کافی فرق ہے، 2018 کے چناؤ کے وقت زیر اعتاب پارٹی کے پاس کسی نہ کسی حد تک لیول پلیئنگ فیلڈ تو موجود تھی اس لیے وہ پارلیمان میں دوسری بڑی جماعت بن گئی اور بعد میں حکومت پر بھی آگئی۔
مگر آج تحریک انصاف لیول پلینئگ فیلڈ تو کیا "فیلڈ" کے لیے بھی ترس رہی ہے مگر شاید 2018 کے الیکشن سے پہلے نواز لیگ کے کریڈٹ پر "سانحہ 9 مئی" جیسا واقعہ نہیں تھا لیکن آج تحریک انصاف کے جسم پر"9 مئی" کا سیاہ دھبہ لگ چکا ہے۔
اس کے زخم اتنے گہرے ہیں کہ کسی بھی مرہم سے مندمل نہیں ہو رہے، اب تک تو یہ بات طے پا چکی ہے کہ فروری 2024 کے انتخابات میں تحریک انصاف کہیں بھی نظر نہیں آرہی، اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ 1996 میں پاکستان میں انصاف کا نعرہ لگا کر وجود میں آنے والی "تحریک" خود "انصاف" اور "رحم" کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔
مگر تشنہ لبوں کے لیے وہی تجسس ہے کہ کب تک؟ اس ملک میں سیاست کے کچھ اصول ہیں، کچھ ضوابط ہیں، کچھ قاعدے اور قانون ہیں جن کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر اس بار تحریک انصاف کے تمام انداز غلط ثابت ہوئے ہیں۔
تحریک انصاف نے ملکی سیاست کے "اسرار و رموز" سمجھنے میں شدید غلطی کی ہے، یہ غلطی وہ غلطی ہے جسے ہم فاش غلطی کہتے ہیں، غلطی سدھارنے کا بھی وہی شدید انداز ہونا چاہیے جو غلطی کرنے کا تھا، تحریک انصاف میں وہ لوگ آج بھی موجود ہیں جنہیں وہ راستے معلوم ہیں مگر شائد یہ وقت درست نہیں یا شائد کچھ نئے لوگ جو تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں وہ اسی راستے کے پیروکار ہیں جو "پنڈی" کو پسند ہے۔
مگر بات پھر وہی ہے کہ درست وقت کا انتظار کرنا پڑے گا، سیانے لوگ کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے، اس لیے تحریک انصاف کو درست وقت کے ساتھ ساتھ سمت مخالف سے بھی کسی بڑی غلطی کا یا ناراضی کا انتظار کرنا پڑے گا۔
بہرحال تازہ قصہ تو یہ ہے کہ ملک میں انتخابی ماحول بننا شروع ہو گیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ابہام تقریبا ختم ہو چکا ہے، انتخابی محاز آرائی کے لیے صف بندی کی جارہی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس الیکشن میں فتح کا "ہما" روایتی طور پر" منظور نظر" کے سر ہی بیٹھتا ہے یا کوئی معجزہ ہوتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے مطابق نئی پود کا خون کافی گرم ہے۔