اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے خلاف تحقیقات کے لئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط لکھ دیا۔
عمران خان کی جانب سے صدر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ چند روز کے دوران عوامی سطح پر نہایت ہوشربا انکشافات ہوئے ہیں، معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جنرل باجوہ نے صحافی سے اعتراف کیا کہ ہم عمران خان کو ملک کے لیے خطرہ سمجھتے تھے ، جنرل باجوہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ عمران خان اقتدار میں رہے تو ملک کو نقصان ہو گا ، تحقیق کی جائے کہ جنرل باجوہ کے استعمال کیے گئے اس ہم سے کیا مراد ہے؟
انہوں نے کہا ہےکہ جنرل باجوہ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ منتخب وزیراعظم سے متعلق فیصلہ کریں، فیصلہ صرف عوام کا ہے کہ وہ کسے وزیراعظم منتخب کرنا چاہتے ہیں، جنرل باجوہ کا خود کو فیصلہ ساز بنانا آئین کے آرٹیکل 244 کی صریح خلاف ورزی ہے، جنرل باجوہ کا خود کو فیصلہ ساز بنانا آئین میں تیسرے شیڈول میں درج حلف کی خلاف ورزی ہے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے اپنی گفتگو میں نیب کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ بھی کیا، جنرل باجوہ نے تسلیم کیا کہ انہوں نے شوکت ترین کے خلاف نیب کا مقدمہ ختم کرایا، جنرل باجوہ کا یہ دعویٰ بھی حلف کی صریح خلاف ورزی ہے، آئین کے تحت افواج پاکستان وزارت دفاع کے ماتحت ڈیپارٹمنٹ ہے، آئینی نظم کے تحت سویلین حکام یا خود مختار ادارے فوج کے ماتحت نہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ کی وزیراعظم سے گفتگو کی ریکارڈنگز آرمی چیف کے حلف کی سنگین خلاف ورزی ہے، جنرل باجوہ کی وزیراعظم سے گفتگو کی ریکارڈنگز بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس سوال کا جواب اہم ہے کہ جنرل باجوہ کیوں اور کس حیثیت و اختیار سے خفیہ بات ریکارڈ کرتے تھے، صدر مملکت اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہونے کے ناطے آپ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ آپ معاملے کا فوری نوٹس لیں۔
عمران خان نے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ تحقیقات کے ذریعے تعین کیا جائے کہ آیا آئین کے تحت آرمی چیف کے حلف کی ایسی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، روس، یوکرین جنگ پر حکومت کی غیر جانبداریت کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی جنرل باجوہ نے اپنے حلف کے تقاضوں کو پامال کیا، جنرل باجوہ نے 2 اپریل 2022 کو سکیورٹی کانفرنس میں روس، یوکرین جنگ پر حکومتی پالیسی سے متضاد موقف اپنایا، میں نشاندہی کردوں کہ معاملے پر حکومت پاکستان کی پالیسی کو وزارت خارجہ اور متعلقہ ماہرین سمیت تمام فریقین میں مکمل اتفاق رائے سے مرتب کیا گیا، آئین کا چیپٹر دوم اور خاص طور پر آرٹیکل 243,244 افواج پاکستان کے دائرہ اختیار کی وضاحت کرتے ہیں۔