لاہور: (دنیا نیوز) سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاک فوج ہماری ہے، اس کیخلاف جانا ممکن نہیں۔ اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
صحافیوں کی وفد سے ملاقات کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین نے کہا کہ لانگ مارچ کے شیڈول میں تبدیلی کردی گئی ہے، شاہ محمود قریشی وزیرآباد سے لانگ مارچ کی قیادت کریں گے جبکہ اسد عمر فیصل آباد سے قافلے کی قیادت کریں گے۔ فیصل آباد سے مارچ جھنگ، سرگودھا، میانوالی اور لیہ سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اور نوازشریف سے کبھی سمجھوتا نہیں ہو سکتا، پوری قوم اب تیار ہے، الیکشن کی تاریخ لیکر ہی واپس آئیں گے، میرا لانگ مارچ ہر صورت میں منزل حاصل کرے گا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ سرحدوں پر کھڑے فوجی میرے بچوں کی طرح ہیں، آرمی چیف کی تقرری میرا ایشو نہیں، پاک فوج ہماری ہے اور اس کے خلاف جانا ممکن نہیں۔
ملزم نامزد کر چکے، ایف آئی آر درج ہونی چاہیے:عمران خان
زمان پارک میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی پارٹی رہنمائوں اور لیگل ٹیم کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں وزیراباد واقعے کی ایف ائی آر کے اندراج میں تاخیر کا جائزہ لیا گیا۔ مشاورت میں سپریم کورٹ کی طرف سے مقدمے کے اندراج کیلئے پنجاب پولیس کو جاری ہدایات پر بھی غور کیا گیا۔
مقدمہ کے مدعی زبیر خان نیازی نے بتایا کہ تھانہ وزیراباد میں وکلاء بیٹھے ہوئے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی مجبور ہو کر پولیس کمپلنٹ سنٹر میں آن لائن درخواست جمع کروائی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم درخواست میں ملزم نامزد کر چکے ہیں انکے خلاف ایف ائی آر درج ہونی چاہئیے۔
عمران خان کا صدر کو خط، حملے کے ذمہ داروں کے محاسبے کا مطالبہ
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط لکھ کر ملک میں آئین و قانون کے انحراف کی راہ روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
عمران خان نے کہا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا گیا ہے، قوم میری حقیقی آزادی کی پکار پر کھڑی ہوچکی ہے، ہمیں جھوٹے الزامات، حراسگی، بلاجواز گرفتاریوں حتیٰ کہ زیر حراست تشدد جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے وزیراعظم، وزیر داخلہ سمیت تین اعلیٰ شخصیات کا نام لے کر کہا کہ ان کا میرے قتل کا منصوبہ میرے علم میں آیا، گزشتہ ہفتے مارچ کے دوران اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی، اللہ نے مجھے بچایا۔
عمران خان نے کہا کہ بطور سربراہ ریاست اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور پر آپ سے التماس ہے کہ قومی سلامتی سے جڑے ان معاملات کا فوری نوٹس لیں، اپنی قیادت میں ذمہ داروں کے تعین کیلئے تحقیقات، ان ذمہ داروں کے محاسبے کا اہتمام کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ بطور وزیراعظم میرے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے مابین گفتگو میڈیا کو جاری کر کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں، سنجیدہ ترین سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی محفوظ گفتگو پر نقب لگانے کا ذمہ دار کون ہے، وزیراعظم کی محفوظ لائن پر یہ نقب قومی سلامتی پر اعلیٰ ترین سطح کا حملہ ہے۔
عمران خان نے کہا کہ میری وزارت عظمیٰ کے دوران سائفر پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں واضح فیصلہ کیا گیا کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں ناقابل قبول مداخلت ہے، شہباز شریف حکومت میں قومی سلامتی کے اجلاس میں اس اجلاس کی کارروائی، فیصلوں کی توثیق کی گئی، مگر 27 اکتوبر کو ڈی جیز نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں قومی سلامتی کمیٹی کے دونوں اجلاسوں کے فیصلوں سے یکسر متضاد نکتہ نظر اپنایا گیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ سوال پیدا ہوتا ہے دو افسران کیونکر کھلے عام قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کو جھٹلا سکتے ہیں، اس پریس کانفرنس سے جان بوجھ کر غلط بیانیے کی تخلیق کی کوشش کا سنجیدہ ترین معاملہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
عمران خان نے خط میں کہا کہ دو اہم ترین سوالات بھی جنم لیتے ہیں، اوّل یہ کہ ایجنسی کا سربراہ پریس کانفرنس سے مخاطب ہو کیسے سکتا ہے، دو افسران کیسے سیاسی جماعت کے سربراہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایس پی آر کے حدود کار کو دفاعی و عسکری معاملات پر معلومات کے اجراء تک محدود کرنے کی ضرورت ہے، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور آپ سے التماس ہے کہ آپ آئی ایس پی آر کی حدود کار کے تعین کے عمل کا آغاز کریں۔