آڈیولیکس، ذمہ دار کون، ایجنسیز کو کسی سے تو پوچھنا ہو گا : عمران خان

Published On 03 October,2022 08:46 pm

لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی آڈیولیک ہونا بڑا سیکیورٹی بریچ ہے، ہماری سکیورٹی ایجنسیز کو آج کسی سے تو پوچھنا ہو گا، کون ذمہ دار ہے، ہماری انٹیلی ایجنس ایجنسیز لوگوں کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دے رہی ہیں۔

نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا قانون وائٹ کالر کرائم پکڑ ہی نہیں سکتا، لندن کے سب سے مہنگے علاقے میں چار شریف فیملی کے فلیٹ ہیں، نواز شریف آج تک منی ٹریل نہیں دے سکے،نوازشریف جب وزیراعظم تھے تب انہوں نے چار فلیٹ خریدے، شریفوں سے اس لیے نہیں ملتا کیوںکہ یہ چورہیں، نیب ترمیم کر کے بڑے ڈاکوؤں کو لائسنس دے دیا گیا ہے،نوازشریف، زرداری، مریم، اسحاق ڈارسب ڈرائی کلین ہوجائیں گے، کسی معاشرے میں ایسے چوری کرنے کا لائسنس ملتے نہیں دیکھا۔

پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو گی تو ملک اوپر جائے گا، مدینہ کی ریاست میں سب سے پہلے عدل اور انصاف تھا، عدل اورانصاف بنیاد ہوتی ہے،اللہ نے حکم دیا ہے اچھائی کا ساتھ اور برائی کے خلاف جہاد کرو،شہبازشریف کے خلاف 16 ارب کا کیس معاف کرالیا ہے،پہلے دن سے کہہ رہا تھا این آر او نہیں دونگا، آج سے گیارہ سال پہلے کہا تھا اگر میں اقتدارمیں آگیا تو یہ اکٹھے ہو جائیں گے، انہوں نے سب کے لیے چوری کے دروازے کھول دیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مریم نوازکا پرابلم یہ لوگ زیادہ تر پڑھے لکھے نہیں،سائفر کی ماسٹر کاپی تو فارن آفس میں پڑی ہوئی ہے،ماسٹرکاپی پہلے فارن آفس پھر اس کی کاپی صدر، وزیراعظم، آرمی چیف کے پاس جاتی ہے،ہم نے سائفر کی کاپی سپیکر کو بھی بھجوائی تھی،یہ کس سائفر کی چوری کی بات کر رہے ہیں، پہلے یہ جھوٹ بولتے رہے سائفر نہیں ہیں، امریکی انڈر سیکرٹری نے کہا عمران کو ہٹاؤ اور شہباز تیار بیٹھا تھا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ایک صحافی نے تو آڈیو کے بارے میں پہلے بتا دیا تھا، پہلےایک اور بھی آڈیو آئی تھی جو بشریٰ بی بی کسی کو فون کر رہی تھیں، وزیراعظم ہاؤس کی آڈیولیک ہونا بہت بڑا سیکیورٹی بریچ ہے، ان سے پوچھا جائے کتنی بڑی سیکیورٹی بریچ ہے،یہ چیزیں دشمنوں تک بھی پہنچ جائیں گی،ہماری سیکیورٹی ایجنسیز کو آج کسی سے تو پوچھنا ہو گا، کون ذمہ دار ہے، ہماری انٹیلی ایجنس ایجنسیز لوگوں کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دے رہے ہیں،پولیٹیکل انجیرینگ ایجنسیزکا کام نہیں ہے،ایجنسیزکا کام ملک کی سیکیورٹی ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانوں کا سمندر باہر نکلنے والا ہے، یہ بات خفیہ رکھی ہوئی ہے، ہماری ہربات لیک ہو جاتی ہے، ہمارے فون ٹیپ ہو رہے ہیں، ایسے لگ رہا ہے جیسے میں کوئی غدار ہوں ہر چیز میری ٹیپ ہو رہی ہے جو ہماری پلاننگ ہے وہ ان کو نہیں پتا، پاکستان کے پیچھے رہنے کی وجہ ملک میں رول آف لا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سےبڑاخسارہ چھوڑ کر اسحاق ڈار ملک سے بھاگا تھا، اسحاق ڈار اعداد و شمار میں ہیر پھیر کرتا تھا، اب ڈار پھر واپس آ گیا ہے، ڈار کچھ نہیں کر سکتا نہ ماضی میں کچھ کیا،یہ سمجھتے ہیں اعداد و شمارمیں ہیرا پھیری کر لیں گے ایسا نہیں ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ کو یہاں کسی نے گارنٹی دی اس لیے آیا،اکانومی کوٹھیک کرنے کا ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں،یہ قرض لیں گے اب ملک میں قرضے واپس کرنے کی بھی سکت نہیں،اگر کوئی ملک قرض دے گا تو کوئی نا کوئی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ یہ تحریک انصاف کی مقبولیت سے ڈرے ہوئے ہیں، پنجاب میں ضمنی الیکشن میں ریاستی مشینری کے باوجود ہار گئے، یہ اسحاق ڈار سے اعداد و شمارمیں ہیر پھیر کرائیں گے ان کو بیرون ملک سے کوئی پیسہ نہیں دے گا،اکانومی تب ٹھیک ہوگی جب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا،اس الیکشن کمشنر کے ہوتے ہوئے فیئر الیکشن کا سوچا بھی نہیں جاسکتا،ایسا لگتا ہے چیف الیکشن کمشنر ن لیگ کا جیالا اور ہمارا دشمن بیٹھا ہوا ہے،ای وی ایم کوچیف الیکشن کمشنر نے روکا، آڈیو لیک میں رانا ثنا اللہ چیف الیکشن کمشنر کو بتارہا تھا کون سے حلقوں میں الیکشن کرانا ہے،اس الیکشن کمشنرکے علاوہ جوبھی آئےگا اس سے بہترہی ہوگا۔

مذاکرات کے دوران بات باہر نہیں کرنی چاہیے: عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بات سیاسی لوگوں سے ہی ہوگی، مجرموں کے ساتھ نہیں۔ جب آپ مذاکرات کر رہے ہوتے ہیں تو پھر باہر بات نہیں کرنی چاہیے۔

ان خیالات کا اظہار چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ کئی عدالتوں کے اچھے فیصلے ہوتے ہیں کئی کے نہیں ہوتے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے متعلق میری ہمیشہ سے رائے رہی ہے کہ زبردست فیصلے کرتی ہے۔

صحافی نے سوال کیا کہ جس کو آپ این آر او کہتے ہیں وہ فیصلے بھی عدالتوں کے ذریعے ہو رہے ہیں، اس پر سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ جیسے ہر سیاستدان اچھا نہیں ہوتا، جیسے صحافی اچھے برے ہوتے ہیں، ایسے ہی کئی عدالتوں کے اچھے فیصلے ہوتے ہیں کئی کے نہیں ہوتے۔ جس طرح چوروں کو دوسری بار این آر او دیا جا رہا تو لوگ سسٹم سے مایوس ہوچکے ہیں۔ چاروں صوبوں میں سیلاب فنڈز کی تقسیم کریں گے۔ لانگ مارچ کی کال آنےوالی ہے۔

صحافیوں کی جانب سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایک انٹرویو میں طاقتور شخصیت کے ساتھ ملاقات کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ جھوٹ میں بولتا نہیں اور سچ میں بول نہیں سکتا۔ اگر آپ بھی سچ نہیں بولیں گے تو کون بولے گا؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ جب ہمارے ان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان کا ابھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو اس حوالے سے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہے۔ طاقتور حلقوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، جب آپ مذاکرات کر رہے ہوتے ہیں تو پھر باہر بات نہیں کرنی چاہیے۔ ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیاسی لوگ مذاکرات کے لیے کبھی دروازے بند نہیں کرتے۔ سیاسی لوگ ہیں، بات کرتے ہیں، بندوق نہیں اٹھاتے، بندوق کے زور پر تو بات چیت نہیں ہوتی اور بات سیاسی لوگوں سے ہی ہو گی، مجرموں کے ساتھ نہیں۔

جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ سیاسی لوگ آپس میں مذاکرات کی بجائے طاقتور حلقوں سے ہی مذاکرات کیوں کرتے ہیں تو پی ٹی آئی چیئر مین نے کہا کہ سیاست دانوں سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں مجرموں اور کریمنلز سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ لہذا ہم اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے۔

صحافی نے کہا کہ آپ کو اتوار کے روز عدالت نے ضمانت دی کیا آپ بھی طاقتور ہیں۔ اس پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرے اوپر تو اتنے مقدمات بن گئے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا، اب تو یہ ایف آئی آر باقی رہ گئی ہے کہ میں نے چائے میں خشک روٹی ڈبو کر کیوں کھائی تھی۔

عمران خان سے سوال کیاگیا کہ مریم نواز کو پاسپورٹ واپس مل گیا کیا کہیں گے؟ جس پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ طاقتور کے لیے قانون اور کمزور کے لیے اور ہے۔

خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کی معافی قبول، توہین عدالت کا نوٹس خارج

خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس خارج کر دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی ،چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان ڈسٹرکٹ کورٹ بھی گئے، عمران خان کے کنڈکٹ کو دیکھتے ہوئے عدالت شوکاز نوٹس خارج کرتی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت شوکاز نوٹس خارج کرنے کی مخالفت کی اور کہا کہ نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز کے فیصلے موجود ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیس کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارٹی جنرل کا کہنا تھا کہ عمران خان نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی، چیئرمین پی ٹی آئی کے ماضی کے رویے پر بھی کچھ ریکارڈ پیش کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری دلائل دیدیں ہم وہ فیصلے میں لکھ دینگے،عدالت عمران خان کے بیان حلفی سے مطمئن ہے، عمران خان نے نیک نیتی ثابت کی اور معافی مانگنے بھی گئے، چیئرمین پی ٹی آئی کا کچہری جا کر خاتون جج سے معافی مانگنا بھی اچھا اقدام ہے۔