لالہ موسیٰ:(دنیا نیوز) وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ٹرسٹی وزیراعلیٰ کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، بہرحال عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں، پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کا احترام بھی کسی سے کم نہیں، ق لیگ کے ارکان نے پارٹی ڈائریکشن کے خلاف ووٹ ڈالا، اہم سوال ہے پارٹی کا ووٹ کس کے کہنے پر دیا جائے گا؟۔
لالہ موسیٰ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کے ارکان نے پارٹی ڈائریکشن کے خلاف ووٹ ڈالا، پارلیمانی پارٹی کا مینڈیٹ نہیں ہوتا، مینڈیٹ قیادت کا ہوتا ہے، حکمران اتحاد کا مطالبہ ہے کہ اس معاملہ پر فل کورٹ بنایا جائے، ہم قومی ایشوز پر اکٹھا ہو کر بیٹھنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن عمران خان سمجھتے ہیں کہ لڑنا بہت بڑا کمال ہے، عمران خان اپنے اقتدار کیلئے لوگوں کو خوف زدہ نہ کریں ۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی والے الزام لگا رہے تھے کہ ووٹ خریدے جا رہے ہیں، حکمران اتحاد نے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے حوالہ سے کیس کیلئے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا ہے، ٹرسٹی وزیراعلیٰ کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، بہرحال عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں، پی ٹی آئی اور ق لیگ والے بتائیں کہ ان کا مینڈیٹ کیسے چوری ہوا؟، پارلیمانی پارٹی کا مینڈیٹ نہیں ہوتا، مینڈیٹ قیادت کا ہوتا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان جھوٹ کو اتنی بار دہراتے ہیں کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے، عدالت کے فیصلے کی بنیاد پر مسلم لیگ (ق) کے ووٹ مسترد ہوئے، وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے بنچ پر اتحادی جماعتوں کے تحفظات ہیں، اس حوالہ سے فل کورٹ بنانے پر عدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، ہم عمران خان کی طرح عدالتوں اور ججز کو دھمکیاں نہیں دیتے، موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ فل کورٹ بیٹھے تاکہ کسی کو بھی فیصلے پر اعتراض نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کے صدر نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے ، اس حوالہ سے انہوں نے (ق) لیگ کے اراکین صوبائی اسمبلی پنجاب کو خط لکھا اور کہا کہ اس حوالہ سے گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کیس دائر کیا گیا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کے خط کی روشنی میں ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب نے (ق) لیگ کے ووٹ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں شامل نہیں کئے تھے، قبل ازیں پوری قوم نے سنا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے امیدوار پرویز الٰہی ہوں گے، اس کا اعلان بھی ہوا تھا لیکن بعد میں پرویز الٰہی عمران خان سے کیسے ملے؟ راتوں رات کیا گیا؟ جس پر شجاعت حسین نے کہا تھا کہ یہ غلط فیصلہ ہے، ہم اصولی طور پر جس جگہ پر کھڑے تھے وہیں کھڑے ہیں۔
قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ اس حوالے سے میری خود شجاعت حسین سے ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ میرے بھائی نے یہ بہت غلط کیا ہے، یہ غیر جمہوری فیصلہ ہے، ہمارا آپ کے ساتھ اتحاد تھا اس لئے ہمیں آپ کے ساتھ کھڑا رہنا چاہئے تھا، یہ غلط ہے کہ شجاعت حسین نے بعد میں فیصلہ کیا کیونکہ وہ پرویز الٰہی کے بطور وزیراعلیٰ امیدوار ( پی ٹی آئی) کو پہلے دن سے نہیں مان رہے تھے، شجاعت حسین ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے بیٹے اور اراکین قومی اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں، آج انہوں نے اپنی جماعت کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے وہ درست فیصلہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں قمر الزمان کائرہ نے پارلیمانی پارٹی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مختلف جماعتیں انتخابات میں اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں، ہر جماعت کا نشان، رہنما اور منشور ہوتا ہے اور جماعت پورے ملک میں مہم چلاتی ہے جس کے بعد اس کے امیدوار ووٹ حاصل کرکے اگر جیتتے ہیں تو پارٹی کے امیدوار اراکین اسمبلی بن جاتے ہیں، اراکین کے منتخب ہونے کے بعد پارلیمانی پارٹی تشکیل پاتی ہے جب اسمبلی وجود میں آتی ہے اور حلف ہو جاتے ہیں، اصول یہ ہے کہ جس جماعت کو عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے اس کے مطابق فیصلہ ہوگا، مینڈیٹ تو سیاسی جماعت کو ملتا ہے نہ کہ پارلیمانی پارٹی کو۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت اور حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ڈی ایم کا فل بنچ کا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا، اگر عمران خان اس مطالبہ کو نہیں مانتے اور انارکی کی طرف جاتے ہیں یا قانون ہاتھ میں لیتے ہیں تو قانون اپنا راستہ اپنائے گا جو بڑا سادہ سا اصول ہے۔
فارن فنڈنگ کیس کے حوالہ سے سوال کے جواب میں قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ اس مسئلہ کا بھی عدالت کو نوٹس لینا چاہئے یا خاص طور پر الیکشن کمیشن نوٹس لے، اب اس کیس کا فیصلہ ہو جانا چاہئے۔
فواد چودھری کی گفتگو کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ان کو سپورٹ کرے تو ٹھیک ہے اور اگر نیوٹرل ہو جائے تو کام غلط ہو جاتا ہے، فواد فیڈر سے دودھ پینے کے بجائے اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنی سیاست خود کریں تو بہتر ہے، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیں سپورٹ کرے۔
ایک اور سوال کے جواب میں مشیر امور کشمیر نے کہا کہ اگر عمران خان کی حکومت جاری رہتی تو ملک کا نقصان ہوتا، ہمارے طویل الزامات میں سے ایک الزام مہنگائی کا تھا، عمران خان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے گئے جس کے نتیجہ میں پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے، ان کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلاشبہ عالمی طور پر بھی مہنگائی بڑھی ہے اور پاکستان میں بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، دنیا کی باقی کرنسیوں کے مقابلہ میں بھی ڈالر بڑھا ہے، صرف پاکستانی روپے کے مقابلہ میں ہی نہیں بڑھا، بہرحال ہمیں پاکستان کے عوام کو جواب دینا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھی تو یہاں قیمت بڑھانی پڑی، کم ہوئی تو ہم نے بھی کم کردی ہے، اس طرح روس اور یوکرین جنگ کی طوالت کے نقصانات سامنے آ رہے ہیں، ہم نے پاکستان کے عوام کو ریلیف دینا ہے۔
قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ فرق صرف یہ ہے کہ ہماری حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم این بلاک سبسڈیز نہیں دیں گے، اگر موٹر سائیکل والا پٹرول پر 100 روپے سبسڈی لیتا ہے اور لینڈ کروزر والا چار کروڑ کی گاڑی کا مالک ہے اور چار ہزار سبسڈی لے رہا ہے تو یہ کیسی سبسڈی ہے؟ یہ نہیں چل سکتی، ہم کم آمدنی والے طبقہ کو سبسڈی دیں گے اور زیادہ آمدنی والے طبقات پر ٹیکس عائد کریں گے، ہم نے ویلیو ایڈیڈ کے ذریعے امراء پر ٹیکس بڑھائے ہیں، ہم نے پر تعیش اشیا کی درآمد پر پابندیاں لگائی ہیں، اس طرح تیل کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز مہنگی ہوئی ہے، ہم ہر طرح سے کوشاں ہیں کہ مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عوام اور میڈیا کا سوال بجا ہے لیکن اگر پنجاب کی حکومت اس طرح مسلسل تعطل کا شکار رہے گی تو معاملات متاثر ہوتے ہیں، اس لئے گزارش کر رہے ہیں کہ فل کورٹ اس معاملہ کو طے کر دے تاکہ مزید کیسز کا معاملہ نہ چلے، چودھری شجاعت نے اگر عام انتخابات میں پی ٹی آئی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی لیکن الیکشن جماعت کے نشان پر لڑے تھے، انہوں نے اب یہ کیوں اور کیسے کیا ؟ اس کا جواب ان سے پوچھا جائے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ پرویز الٰہی پاکستان کا سب سے بڑا ڈاکو ہے یہ میں نے نہیں کہا بلکہ عمران خان نے کہا تھا جو آج ان کیلئے لڑائی لڑ رہے ہیں، سیاست میں اختلافات کے باوجود ہم آج بھی اجتماعی مسائل کے خاتمہ کیلئے تمام سیاسی جاعتوں کو بیٹھ کر گفتگو کی دعوت دیتے ہیں، ماضی میں اور تعصبات میں رہ کر معاشرے اور گھر کی خدمت نہیں کی جاسکتی جو ہمارا تجربہ ہے، ہم عمران خان کو بھی کہتے ہیں کہ اس سے سیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے اقتدار کیلئے لوگوں کو خوف زدہ نہ کریں، پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے، ہم نے عالمی برادری اور مالیاتی اداروں کے ساتھ اپنے معاملات کو بہتر کیا ہے، عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے حواری قانون ہاتھوں میں لے کر مخالفین کے گھروں پر چڑھائیاں کریں جو انارکی ہے، ہمارے تحمل کا سبب یہ ہے کہ ہم نے ماضی سے سیکھا ہے کہ لڑائی میں کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم آمروں سے نہیں ڈرے یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔
قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ ہم قومی ایشوز پر اکٹھا ہو کر بیٹھنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن عمران خان سمجھتے ہیں کہ لڑنا بہت بڑا کمال ہے، اس سے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا، عمران خان نے سوشل میڈیا کے ذریعے فائدہ حاصل کیا ہے لیکن ہر وقت غصے میں رہنے والا شخص نہ تو خاندان کا اچھا فرد بن سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے اور سماج کی خدمت کرسکتا ہے۔