حکومت کی امپورٹڈ چاکلیٹ، موبائل فونزو دیگر اشیاء درآمد کرنے پر پابندی

Published On 19 May,2022 05:30 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تنزلی روکنے کیلئے وفاقی حکومت نے بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے لگژری اشیا کی امپورٹ پر مکمل پابندی عائد کر دی، بڑی گاڑیاں، امپورٹڈ چاکلیٹ ، موبائل فونز، ہوم اپلائنسز،کراکری آئٹمز، شوز ،ڈیکوریشن کا سامان، سینٹری ویئر، فش فروزن،کارپٹ ،ٹشو پیپر،فرنیچر، میک اپ اور شیمپو شامل ہے۔

 

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ ملک میں اس وقت عوامی حکومت ہے جس میں وفاق کی تمام اکائیاں اور صوبوں کی نمائندگی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں ملکی معیشت کو تباہ کیا گیا، عوام کو لوٹا گیا، مہنگائی کی شرح بڑھائی گئی، گزشتہ چار سال کے دوران جتنا قرضہ لیا گیا وہ 1947ء سے 2018ء تک لئے جانے والے قرضے کا 80 فیصد ہے، چار سالوں میں قرضے کو 25 ہزار ارب سے بڑھا کر 43 ہزار ارب روپے کر دیا گیا، 2018ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں غذائی مہنگائی 2.3 فیصد تھی، آج مہنگائی پر وہ لوگ سوال کر رہے ہیں جنہوں نے غذائی مہنگائی کو 16 فیصد تک پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ 2018ء میں پاکستان ایمرجنگ مارکیٹس کے اندر شامل ہو چکا تھا، ترقی کی شرح 6 فیصد پر پہنچ چکی تھی، پچھلے چار سالوں میں اسے منفی کیا گیا۔ پچھلے چار سالوں میں امپورٹڈ حکومت، امپورٹڈ کابینہ، امپورٹڈ مشیر اور امپورٹڈ ترجمانوں کی حکومت تھی، پچھلی حکومت کے دوران تجارتی خسارہ پاکستان کی بلند ترین سطح پر تھا، مسلم لیگ (ن) کے دور میں ترقی کی شرح 6 فیصد تھی، اُس وقت ملک میں سی پیک تھا، 11000 میگاواٹ بجلی کے منصوبے بن رہے تھے، ڈالر کی قیمت مستحکم تھی۔ سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کو اقامے پر جب نکالا گیا تو اس وقت ڈالر کی قیمت 105 روپے تھی، جب 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقتدار چھوڑ کر گئی تو ڈالر کی قیمت 115 روپے تھی، آج سازشی کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس حکومت سے سوال کر رہا ہے جسے اقتدار میں آئے ہوئے چار ہفتے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے اور تھوڑی سی شرم کرنی چاہئے کہ ڈالر 189 پر ان کے دور حکومت میں گیا، غیر ملکی ذخائر کی بدحالی ان کے دور میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کے ذریعے جب ان سے چھٹکارا حاصل کیا تو انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 193 روپے تھی۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف کی سخط شرائط پر عمران خان نے دستخط کئے جس کی وجہ سے آج عوام پریشانی کا سامنا کر رہی ہے۔ جو لوگ صبح دوپہر شام ملکی معیشت پر سوال اٹھا رہے ہیں ان پر عمران خان نے خود اعتماد نہیں کیا، اسد عمر کی وزارت ایک رات میں دو مرتبہ تبدیل کی گئی، وزیر خزانہ کئی مرتبہ تبدیل ہوا، آج وہی لوگ دوسروں پر معیشت کا سوال کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی واحد حکومت تھی جس نے آئی ایم ایف پروگرام کو 2015ء میں مکمل کیا، 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں پاکستان ایمرجنگ مارکیٹس میں شامل ہو گیا تھا، مسلم لیگ (ن) نے آئی ایم ایف پروگرام کو رول بیک کیا، مسلم لیگ (ن) کے منشور میں پاکستان سے مہنگائی ختم کرنا ہے۔ 90 دن میں جو کرپشن ختم کرنے آئے تھے انہوں نے کرپشن کے ذریعے پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کیا، کارٹلز اور مافیاز نے چار سال پاکستان کے عوام کو لوٹا، جتنے وزراء اور مشیر امپورٹ ہو کر آئے تھے آج سب ایکسپورٹ ہو کر پاکستان سے باہر چلے گئے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ بیرون ملک قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لئے فسکل مینجمنٹ کا مکمل پلان تیار کیا ہے، شہباز شریف وہ وزیراعظم ہیں جنہیں ڈالر کی قدر کا ٹی وی سے نہیں پتہ چلتا، وہ عوام کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ حکومت نے غیر ضروری لگژری آئٹمز پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ایسی تمام اشیاء جو عوام کے استعمال میں نہیں ہیں، ان کی درآمد پر مکمل پابندی لگائی جا رہی ہے۔ تزئین و آرائش کی اشیاء سمیت تمام درآمدی گاڑیوں اور موبائل فونز پر پابندی عائد ہوگی۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں ایمرجنسی صورتحال ہے، ایسے وقت میں تمام پاکستانیوں کو قربانی دینا پڑے گی۔ لگژری آئٹمز پر پابندی کے نتیجے میں سالانہ چھ ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہماری ترجیح درآمدات پر انحصار کم کرنا ہے اور برآمدات پر مبنی اکنامک پالیسی متعارف کرانا ہے، لگژری آئٹمز پر پابندی کا اثر مقامی انڈسٹری، لوکل پروڈیوسرز، مقامی صنعت پر پڑے گا، ملک کے اندر مقامی صنعتوں کے فروغ سے لوگوں کو روزگار میسر آئے گا، پچھلے چار سالوں کے دوران 60 لاکھ لوگوں کو بے روزگار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ لگژری آئٹمز پر پابندی کا براہ راست اثر کرنٹ اکائونٹ خسارے پر ہوگا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بڑی گاڑیوں، موبائل فونز، ہوم ایپلائنسز، ڈرائی فروٹ، کراکری، پرائیویٹ ویپنز، شوز، ڈیکوریشن پیسز، فوڈ آئٹمز، سوسز، فروزن میٹ، فروٹ، سینیٹری ویئر، ڈور اینڈ ونڈوز فریمز، فش اینڈ فروزن آئٹمز، کارپٹ، فوڈ آئٹمز، ٹشو پیپرز، میک اپ کی اشیائ، شیمپو، جیم اینڈ جیلی، باتھ روم پروڈکٹس، ہیٹر، بلور، سن گلاسز، کچن ویئر، فروزن میٹ، جوسز، آئس کریم، سگریٹ، لگژری لیدر، میوزیکل آلات، چاکلیٹ سمیت تمام لگژری درآمدی اشیاء پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ جو شخص آج کنٹینر پر کھڑا ہو کر مہنگائی کے بھاشن دے رہا ہے اس نے چار سال صرف قرضوں میں اضافہ کیا، ایک منصوبے کی اینٹ تک نہیں لگائی۔ ان نالائقوں اور نااہلوں نے کارٹلز اور مافیاز کو فائدہ پہنچایا، انہیں ملک کی معاشی پالیسی کا پتہ ہی نہیں تھا کہ ملکی معیشت کس سمت جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے فسکل مینجمنٹ اور اکنامک پلان کو حتمی شکل دی ہے، انرجی کنزرویشن اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی چار سال تک وفاق اور 9 سال تک خیبر پختونخوا میں حکومت رہی، خیبر پختونخوا میں 9 سال سے احتساب کمیشن کو تالہ لگا ہوا ہے، نیب کے تمام کیسز بند ہیں، کسی بھی احتساب کے کیس میں عمران خان کا نام آتا تو اس کیس کو بند کر دیا جاتا ہے، عمران خان نے خیبر پختونخوا کا ہیلی کاپٹر استعمال کیا، اس ہیلی کاپٹر کیس کو بھی تالہ لگا ہوا ہے، بی آر ٹی پشاور، بلین ٹری سونامی کیس کو بھی تالے لگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چار سال اقتدار کی کرسی پر مسلط ٹولہ آج کہتا ہے کہ مہنگائی کیوں ہوئی ہے، یہ مہنگائی عمران خان نے کی ہے جس نے 2.3 فیصد سے 16 فیصد تک اسے پہنچایا۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے ڈر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ان فنڈڈ سبسڈی دی، ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا، معیشت کے ساتھ وہ کھیل کھیلا گیا اور یہ سمجھا کہ آنے والی حکومت کے لئے وہ جال بچھا کر جا رہے ہیں۔انہوں نے آئی ایم ایف کی سخط شرائط پر دستخط کئے جن سے ہم نکل نہیں سکتے۔ ہمارے لئے بہت آسان ہے کہ ان نالائقوں کی وجہ سے پیدا کردہ بوجھ پاکستان کے عوام پر ڈال دیا جائے لیکن مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کا یہ مقصد نہیں کہ عوام پر بوجھ ڈالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور میں مہنگائی کی سطح کو تاریخ کی کم ترین سطح پر لایا، سی پیک کے ذریعے لوگوں کو روزگار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے چار سالوں کے دوران وزیر خزانہ کو کئی مرتبہ بدلا گیا، پچھلے چار سالوں میں ملک کے وزیراعظم کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ڈالر کا ریٹ کیا ہے، وہ کہتا تھا کہ وہ ٹماٹر، آلو اور چینی کی قیمتیں دیکھنے نہیں آیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور میں 52 روپے فی کلو چینی کی قیمت کو برقرار رکھا لیکن اس ٹولے نے چینی کو برآمد کیا پھر درآمد کیا اور اس طرح چینی کی قیمت 120 روپے فی کلو تک پہنچائی۔ ایک کلو چینی کے لئے خواتین رمضان میں قطاروں میں کھڑے ہو کر چینی خریدنے پر مجبور تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام یہ باتیں بھول چکے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ روئیں، چیخیں یا پیٹیں، الیکشن کرانے کا فیصلہ ہم نے کرنا ہے، الیکشن اس وقت ہوں گے جب ہم فیصلہ کریں گے، ان کا مقصد الیکشن کرانا ہوتا تو یہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے خود اسمبلیاں تحلیل کر دیتے لیکن ان کا خیال تھا کہ یہ اتحادیوں کے پائوں پڑیں گے اور اقتدار سے چمٹے رہیں گے، انہوں نے صبح دوپہر شام عدالتوں کو دھمکیاں دیں، پھر کہا کہ عدالتیں رات کو کیوں کھلیں، عدالتیں رات کو آئین پر حملہ آور شخص کے خلاف کھلیں۔ جب ان کے حق میں کوئی فیصلہ آئے تو وہ ٹھیک لیکن جب ان کے خلاف کوئی فیصلہ آئے تو یہ عدالتوں کو دھمکیاں دینے پر اتر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ معاشی پلان کس کے پاس ہے، اگر پاکستان کے عوام کو بے روزگاری، مہنگائی اور معاشی تکلیف سے کوئی نکال سکتا ہے تو وہ موجودہ حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف دن رات معاشی بہتری کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، وہ روزانہ آٹے اور چینی کی قیمتیں دیکھ کر سوتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ آٹا، پٹرول، ڈیزل کی ذخیرہ اندوزی تو نہیں ہو رہی۔ شہباز شریف عوامی وزیراعطم ہیں اور عوام کے لئے چیزیں سستی کرنے آئے ہیں، یہی فرق عمران خان اور شہباز شریف میں ہے۔ مہنگائی کرنے کے فیصلے بہت آسان جبکہ مہنگائی کم کرنے کے لئے دن رات محنت کرنا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سال کارٹلز اور مافیا کے ذریعے چینی کی قیمتوں کو بڑھایا گیا۔ مسلم لیگ (ن) جب اقتدار چھوڑ کر گئی تو آٹا اور چینی برآمد ہو رہا تھا، آج اس ٹولے کی وجہ سے چینی درآمد ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان جتنی مرضی دھمال ڈالیں، جتنا مرضی شور کرلیں، پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ عمران خان ملک میں انتشار اور افراتفری چاہتے ہیں۔ اپنے اقتدار سے پہلے یہ کنٹینر پر چڑھے، سول نافرمانی کی کالیں دیں، بل جلائے، پولیس والوں کے سر پھاڑے اور پھر چار سال حکومت میں رہ کر بھی آئینی اور ریاستی اداروں کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا، میڈیا کو جیلوں میں ڈالا اور اب ملک میں انارکی چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان صبح دوپہر شام جھوٹ بول کر اپنی چوری سے نظریں نہیں ہٹوا سکتے، اپنے فرنٹ مین فرح گوگی اور شہزاد اکبر کی چوری اور توشہ خانہ سے کی گئی چوری سے نظریں نہیں ہٹوا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ملک کے اندر معاشی تباہی، مہنگائی اور بے روزگاری سمیت قرضوں کا تحفہ دیا، پاکستان کے عوام آج ان کی وجہ سے مشکل وقت سے گذر رہی ہے، ان کا پھیلایا ہوا گند ہم صاف کر رہے ہیں۔ عمران خان چار سال حکومت میں رہے، جب انہیں پتہ چلا کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو رہی ہے تو انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہا، سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے کہا کہ آئین شکنی ہوئی، ان کے ڈپٹی سپیکر کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی، یہ تمام اعمال نامے پاکستان کے عوام کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے ہمارے پاس صلاحیت بھی ہے اور نیت بھی ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ جس شخص نے ڈالر کا ریٹ 183 روپے تک پہنچایا آج وہ ڈالر کی قیمت بڑھنے پر بھاشن دے رہا ہے۔ پاکستان کے عوام ان کے جھوٹ سن سن کر تھک گئی ہے لیکن یہ شخص جھوٹ بولتے تھکتا نہیں، اس کے پاس اپنی کارکردگی پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں، انہوں نے لوگوں کو بے روزگار کیا، ادویات کی قیمتیں پانچ سو فیصد مہنگی کیں۔ حکومت نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین میں سے ایک رکن کا بھی ووٹ نہیں لیا، یہ حکومت تمام اتحادی جماعتوں کے اتحاد سے بنی ہے جو منتخب اور آئینی حکومت ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران خان نے اقتدار سے ہٹنے کے بعد ملک کے خلاف سازش کی، پہلے وہ خط لہراتے تھے لیکن اب ان کو سمجھ آ گئی ہے کہ اس خط سے ان کا تمسخر اڑا ہے، اس لئے اب وہ خط نہیں لہراتے، پاکستان کے عوام خط کی حقیقت جان چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کرانے کا فیصلہ حکومت اور اتحادیوں کا ہوگا، عمران خان کے پاس اس فیصلے کا حق عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے تھا، اگر انہوں نے الیکشن کرانے تھے تو وہ کنٹینر پر چڑھ کر نہیں کرائے جاتے، وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر ان کے پاس آئینی حق موجود تھا لیکن اس وقت انہیں اقتدار کی ہوس تھی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کرانے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) اور تمام اتحادی مل کر کریں گے، اس لئے الیکشن کرانے کی گردان بند ہونی چاہئے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کے عوام آج ان سے سوال پوچھتے ہیں کہ چار سال اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر انہوں نے اپنے اختیارات کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا، یہی اختیارات مہنگائی کم کرنے کے لئے بھی استعمال کئے جا سکتے تھے لیکن ان میں صلاحیت نہیں تھی، ان کی نیت کارٹلز اور مافیاز کی جیبیں بھرنا تھی۔ آج جس فنڈنگ سے یہ جلسے کروا رہے ہیں یہ وہی فنڈنگ ہے جو عوام سے لوٹ کر کارٹلز اور مافیاز کے پاس گئی، اور اب اسی پیسے سے یہ جلسے کروا رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے نیب کے حوالے سے فیصلے موجود ہیں، نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا جاتا رہا، نیب کی جتنی بھی کارروائی ہے وہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعد رفیق کے کیس میں یہ فیصلہ موجود ہے، اس کے اندر واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ پچھلے چار سالوں میں وزیر اعلان کرتا تھا کہ فلاں گرفتار ہوگا، اگلے دن نیب اسے گرفتار کرتا، نیب نیازی گٹھ جوڑ عمران خان کا ذیلی ادارہ تھا۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ نیب کو کس طرح استعمال کیا جاتا رہا۔  پچھلی حکومت نے چھ نیب ترمیمی آرڈیننس نکالے، آخری آرڈیننس 2 جون کو ختم ہو رہا ہے جس میں چیئرمین نیب کی موجودہ مدت ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بشیر میمن کا انٹرویو سب کے سامنے ہے کہ کس طرح اداروں کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری قانونی ٹیم مشاورت کر رہی ہے، سپریم کورٹ کے نوٹسز پر اپنا موقف پیش کریں گے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لگژری آئٹمز پر پابندی کے حوالے سے سمگلنگ جیسے امور پر بھی مانیٹرنگ میکنزم وضع کیا گیا ہے۔ لگژری آئٹمز پر پابندی جیسے اقدامات پاکستان کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے ہیں، اسے جو بھی سبوتاژ کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قومی فریضہ ہے، سب کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے تاکہ پاکستان کے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف مل سکے۔

ایک سوال پر وزیر اطلاعات نے کہا کہ شہباز شریف پاکستان کے عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں، گزشتہ چار سال کے دوران دو کروڑ سے زائد افرد خط غربت سے نیچے گئے، مہنگائی کی چکی میں پسنے والے طبقے کو کس طرح ریلیف دینا ہے، اس کے لئے پورا پلان مرتب کیا گیا ہے۔ اسی طرح پٹرولیم بل کو کم کرنے کے لئے بھی کام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو معاشی مشکلات سے محفوظ رکھنے کے لئے اکنامک پلان وضع کیا گیا ہے جس کی شروعات ہو چکی ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیراعظم جلد قوم سے خطاب کریں گے۔ ہمارے پاس آپشن تھا کہ ہم درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی بڑھا دیں لیکن اس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر کم پڑتا، درآمدی بل بڑھتا رہتا، ہم نے ایک مدت کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں، اس کا براہ راست فائدہ عوام کو ملے گا، مقامی صنعت کو فروغ حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہمیں درآمدی اشیاء پر انحصار کم کرنا ہوگا۔ پچھلی حکومت میں امپورٹڈ مشیران، امپورٹڈ ایڈوائزرز، امپورٹڈ کابینہ، کارٹلز اور مافیاز نے ملک کا بیڑہ غرق کیا، موجودہ حکومت نے امپورٹڈ مشیران اور امپورٹڈ وزراء پر جس طرح انحصار کم کر دیا ہے، اسی طرح ہم نے درآمدی اشیاء پر انحصار کم کرنا ہے۔ ہمارا مقصد مقامی سطح پر اشیاء کو متعارف کرانا ہے، انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ اس فیصلے کا ملک کی مقامی صنعت پر بھی اثر پڑے گا۔

ایک سوال پر مریم نے کہا کہ عمران خان کی اصلیت عوام جان چکی ہے، وہ جو وہ بول رہے ہیں اس پر انہوں نے خود عمل نہیں کیا، چار سال اقتدار میں رہ کر انہوں نے جو کچھ کیا، آج اس پر یہ چار ہفتے سے آئی ہوئی حکومت سے سوال کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے خلاف جلسہ اور مارچ کا وہ لوگ کہہ رہے ہیں جنہوں نے 2.3 فیصد کی غذائی مہنگائی کو 16 فیصد تک پہنچایا۔ قرضے پر بات کرنے والے شخص نے قرضے کو 25 ہزار ارب سے بڑھا کر 43 ہزار ارب روپے کر دیا۔ کشمیر فروشی کرنے والا شخص کہتا ہے کہ میرے علاوہ کشمیر پر کسی نے بات نہیں کی، کشمیر فروشی کرنے والے شخص نے کہا کہ کشمیر ہائی وے کو سرینگر ہائی وے کا نام دے کر اٹھک بیٹھک کرو تو کشمیر آزاد ہو جائے گا، عمران خان نے کہا کہ مودی جیت گیا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے خارجہ پالیسی کو تباہ و برباد کیا، معیشت کا جو حال کیا اس کا خمیازہ آج تک عوام بھگت رہے ہیں، اس شخص کے جھوٹے بیانیے ہر روز دفن ہوتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے نام پر اس نے عوام کو بے روگار کیا، معاشی دہشت گردی کی اور ملک میں بے روزگاری کی۔ حکومت میں رہ کر اس نے جھوٹ بولے، کرپشن کے بیانے پر اس نے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا، آج وہ بیانیہ بھی ختم ہو گیا، اس پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلے بھی آ گئے۔ اس کے بعد امر بالمعروف کے نام کا سہارا لینے کی کوشش کی، پھر سازشی خط کا بیانیہ لہرانے کی کوشش کی، 25 دن تک یہ خط کو بھولے رہے، جنہوں نے دھمکی دی اسے ایمبیسی میں بلا کر تقریریں کرواتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو عمران خان جیسے جھوٹے اور سازشی سے آزادی چاہئے، ہم نے ان کی نالائقی اور نااہلی سے پارلیمان کو آزاد کروایا، ملک اور پاکستان کی سیاست کو بھی ان کی جھوٹی اور ناکام سیاست سے آزادی دلوائیں گے۔ ایک سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ الیکشن کرانے کا اختیار ہمارے پاس ہے، جب ہم چاہیں گے الیکشن ہوگا، تماشے کرنے سے الیکشن نہیں ہوگا۔ عمران خان الیکشن کے مطالبہ کا اختیار کھو چکے ہیں، تحریک عدم اعتماد سے پہلے ان کے پاس الیکشن کرانے کا آئینی اختیار تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب الیکشن اس وقت ہوگا جب الیکشن کمیشن تیار ہوگا اور حکومت اور اس کے اتحادی چاہیں گے۔

ایک سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اداروں کو آئین کا تحفظ حاصل ہے، ان کے خلاف جو شخص بولے گا، اس پر زیرو ٹالرینس ہے۔ پیمرا ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے، یہ وزارت اطلاعات کی ڈائریکشن میں نہیں آتا۔ ملک میں ایسا وزیر اطلاعات بھی موجود نہیں جو پیمرا کو سیاسی مخالفین کی آواز بند کرنے کے لئے استعمال کرے۔ کسی بھی آئینی ادارے کو بدنام کرنے پر زیرو ٹالرینس ہے۔ ایک سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان چار سال اقتدار میں رہنے کے بعد چار ہفتے اقتدار میں آئی حکومت سے مہنگائی اور بے روزگاری پر سوال کر رہے ہیں، اس سے ان کے ذہنی توازن کا پتہ چلتا ہے، ہم ان کا علاج مفت کروائیں گے، یہ ایڈمٹ تو ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے روزانہ بیانات بدلتے ہیں۔ آئین اور ووٹ کے ذریعے انہیں پارلیمان سے باہر کیا ہے، انہیں آج تک سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔

ایک سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ 126 دن عمران خان دھرنے میں بیٹھے رہے تھے کیا وہ استعفیٰ لے کر گئے تھے۔ انہوں نے چار سال اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر وقت ضائع کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان خونی مارچ کے بیانات دے رہے ہیں، اس پر زیرو ٹالرینس ہے، آئین، جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ملک کے اندر خونی مارچ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کس بات پر احتجاج کر رہے ہیں، چار سال یہ حکومت میں رہے، ووٹ کے ذریعے انہیں پارلیمان سے باہر نکالا۔ آج وہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں تو جب یہ اقتدار میں تھے تو الیکشن کروا دیتے، آپ کو کسی نے منع کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک ہارے ہوئے اور ناکام شخص ہیں جو ملک کے اندر فساد چاہتے ہیں۔ عمران خان کی کوئی بھی دھمکی اور گیدڑ بھبکی قبول نہیں کی جائے گی۔

لگژری آئٹمز کی درآمد کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ جو ایل سی کھل گئی ہے اور ادائیگیاں ہو چکی ہیں، وہ سامان اب ملک میں آ چکا ہے، وفاقی حکومت نے سمری کے تحت کابینہ کی منظوری کے بعد آج یہ فیصلہ کیا ہے، تو آج کے بعد کوئی آرڈر یا کوئی چیز پاکستان درآمد نہیں کی جائے گی۔

گندم کے حوالے سے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم نے اس حوالے سے اجلاس کی صدارت کی ہے، صوبوں کو گندم کی خریداری کے اہداف دیئے گئے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے بھی انتظامی طریقے سے آپریشن جاری ہے۔

 

ملک کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی:شہباز شریف

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کے لگژری آئٹمز پر پابندی کے فیصلے سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔

ایک ٹویٹ میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم کفایت شعاری پر عمل کریں گے اور مالی طور پر مضبوط لوگوں کو اس کوشش میں آگے بڑھنا چاہیے تاکہ ہم میں سے کم مراعات یافتہ لوگوں کو یہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے جو پی ٹی آئی حکومت نے ان پر ڈالا ہے۔