شب قدر: توبہ اور دعاؤں کی قبولیت کے بابرکت لمحات

Published On 28 April,2022 12:10 pm

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) رمضان المبارک کا پورا ماہ منور برکتوں اور رحمتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں گناہگاروں کی مغفرت و معافی عام ہوتی ہے، گویا یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات ہے۔ اس ماہ کامران میں مومن کا رزق فراخ کر دیا جاتا ہے، نیکیوں کے اجر کو سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

غرض یوں تو پورا رمضان ہی باعث شفاعت و نجات ہے لیکن لیلۃالقدر جو صرف سرکار کونین ﷺکے صدقے میں آپﷺ ہی کی امت کے حصہ میں آئی ہے۔ اس کی تو شان ہی نرالی و منفرد ہے یہ جب آتی ہے تو اپنے جلو میں بے پناہ رحمتیں اور برکتیں لے کر آتی ہے۔ اس شب کی عبادت کو ہزار ماہ کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے اور ہزار ماہ تقریباً 83 برس4ماہ بنتے ہیں۔گویا کہ جو خوش نصیب اس میں رات بھر عبادت میں مصروف رہتا ہے، وہ 83 برس چار ماہ کی عبادت سے کہیں زیادہ اجر و ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔

لیلۃ القدر کی عظمت و فضلیت کیلئے یہی بات کافی ہے کہ اس ضمن میں قرآن کریم کی پوری سورہ’’سورۃ القدر‘‘ نازل ہوئی ہے۔

قدر کے ایک معنی شرف و منزلت کے ہیں چنانچہ علامہ قرطبی اس معنی کے لحاظ سے اس رات کو لیلتہ القدر تعبیر کرنے کی وجہ سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدر و منزلت والی کتاب (قرآن مجید) بڑی قدر و منزلت والے رسول اللہ ﷺ پر اور بڑی قدرو منزلت والی امت کیلئے لوح محفوظ سے نازل فرمائی اور پھر اسے 23 برس کی مدت میں مکمل فرمایا۔

علامہ زہری لکھتے ہیں کہ اسے لیلۃ القدراس لئے کہتے ہیں کہ اس میں نیک بندوں اور عبادت گزاروں کی اللہ تعالیٰ اور عالم بالا کے ساکنان کے نزدیک بڑی قدرو منزلت ہے۔ بلکہ اہل صفا جن کا ظاہر و باطن آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہوتا ہے سے مصافحہ بھی کرتے ہیں اور عام ایمانداروں کو بھی چھوتے ہیں جو مصروف عبادت ہوتے ہیں گو ان کو چھونے میں دقت محسوس نہ ہو مگر اس چھونے کا اثر رقت قلبی،گریہ و زاری، گناہوں پر نادم ہونے، آنسو بہانے اور دعا و استغفار کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس رات میں ان کے اعمال صالحہ کی قدر ومنزلت باقی راتوں کے مقابلہ میں ہزار درجہ زیادہ ہوتی ہے۔

قدر کا معنی تنگی بھی آتا ہے اور قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اسی معنی میں استعمال ہوا ہے اس معنی کے اعتبار سے اسے لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین باوجود بے پناہ وسعتوں کے تنگ ہو جاتی ہے۔
امام ابو راق فرماتے ہیں کہ یہ رات عبادت میں مصروف بندے کو چونکہ صاحب قدر بنا دیتی ہے اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہ تھا اس لئے بھی اس کو شب قدر کہتے ہیں۔

یہ نزول قرآن پاک کی شب اور قیام پاکستان کی شب ہے۔ اس رات حضرت جبرئیل امین ؑفرشتوں کی ٹولیوں کے ہمراہ نازل ہو کر عبادت میں مصروف بندگان خدا کو سلام اور مصافحہ کرتے ہیں۔ اس رات کا ہر ہر لمحہ قیمتی ہے اور سلامتی ہے حتیٰ کہ اس شب سانپ،بچھو اور دیگر آفات و بلیات اور شیاطین سرکش جنات سے بھی ہم محفوظ کر لیے جاتے ہیں۔

ایک روز سرکار مدینہ ﷺ اپنے حجرہ مبارک سے جلوہ گر ہوئے تو لوگوں کو مناجات میں مشغول پایا۔ ارشاد فرمایا میں تمھارے پاس اس ارادہ سے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی اطلاع کروں مگر مجھے خوف ہے کہ تم اسے ضبط نہ کر سکو گے۔ تم اسے رمضان کے آخری عشرہ کی 9 راتوںمیں تلاش کیا کرو۔

بلاشبہ شب قدر اللہ کا امت رسولؐ پر ایک عظیم انعام ہے جو فقط امت رسولؐ کی ہی خصوصیت ہے، کسی اور امت کو یہ عطا نہیں ہوئی۔ جب رسول کریم ﷺ کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ کیا گیا تو آپﷺ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو دیکھتے ہوئے یہ خیا ل فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی مختصر عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟ جب اللہ نے آپ ﷺ کے مقدس دل کو اس معاملہ میں ملول و پریشان دیکھا تو آپﷺ کو لیلۃ القدر عطا فرما دی، جو صدقہ میرے آقا کریم ﷺکا ہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت ﷺ میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کی راہ میں جہاد میں مصروف رہا تو حضور پاکﷺ نے اس پر تعجب فرمایا اور اپنی امت کیلئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کہ اے میرے اللہ! میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ نے یہ شب قدر عنایت فرمائی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک بار حضور اکرمﷺ کے سامنے مختلف شخصیات حضرت ایوبؑ حضرت زکریاؑ، حضرت حزقیلؑ، حضرت یوشعؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے 80،80 سال متواتر اللہ کی عبادت کی ہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرامؓ کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا تو اسی وقت جبرائیل ؑ حضور کی پاک بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپؐ کی امت کے افراد ان سابقہ لوگوں کی 80،80 سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپؐ کے رب نے آپﷺ کو اس سے بہتر عطا فرمادیا ہے اور پھر سورۃ القدر کی تلاوت کی۔ اس پر رسول خدا ﷺ کا چہرہ اقدس مسر ت سے چمک اٹھا۔

گویا لیلۃ القدر امت رسولؐ کو خدائی تحفہ ملا جو حضور پاکﷺ کا صدقہ ہے۔ اس رات کی بہت فضلیت ہے،حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ شب قدر میں عبادت کے لئے قیام فرمایا اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس رات کو اخفاء رکھنے میں کیا حکمتیں تھیں ؟اس ضمن میں بھی ارباب علم نے متعد د حکمتیں بیان کی ہیں وہ یہ کہ اللہ نے دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسم اعظم،جمعہ کے روزقبولیت کی دعا کی گھڑی کو اخفا میں رکھا، ایسے ہی اس رات کو بھی پوشیدہ رکھا تاکہ اسم اعظم اور قبولیت دعا کی ساعت کے حصول کی طرح اس رات کے پانے میں بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اس رات کو اس لئے نہیں متعین کیا گیا تاکہ فرزندان اسلام ایک کی تلاش و جستجو میں زیادہ نہیں تو کم از کم پانچ طاق راتیں اللہ کے ذکر و عبادت میں گزاریں اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا اور متعین کر دیا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور لوگ صرف اسی رات کو ہی جاگتے، چنانچہ ذوق عبادت میں دوام کی خاطر اس کو عیاں نہیں کیا گیا ۔

 

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی معروف عالم دین ہیں، 25 سال سے مختلف جرائد کیلئے اسلامی موضوعات پرانتہائی پر اثر اور تحقیقی مضامین لکھ رہے ہیں