اسلام آباد:(دنیا نیوز) سپریم کورٹ بار کی تحریک عدم اعتماد سے پہلے جلسہ روکنے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جتھے لاکر کسی رکن اسمبلی کو روکنے کی اجازت نہیں دیں گے، سیاسی جماعتیں ڈی چوک استعمال نہ کریں، ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، بہتر ہوگا اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر ہی لڑی جائے، دونوں جلسوں کی ٹائمنگ الگ ہونی چاہیے تاکہ تصادم نہ ہو، دیکھنا ہے کسی ایونٹ کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، شہباز شریف، بلاول بھٹو، فضل الرحمان، اختر مینگل اور دیگر رہنما عدالت میں پیش ہوئے۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال اور اسلام آباد میں جلسوں کو روکنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ محض قانونی مسئلہ نہیں، یہ سیاسی مسئلہ بھی ہے، اس میں انا نہیں ہونی چاہیے، اس عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنا ہے، اگر آپ لوگوں کو کچھ خدشات ہیں کہ تصادم ہو سکتا ہے، ہمیں 24 تاریخ کو مواد لاکر دکھا دیں، جہاں الیکشن ہوتا ہے وہاں ہم رک جاتے ہیں، ہمیں مواد دکھا دیں، اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئیں تو کوڈ آف کنڈکٹ بنا لیں گے۔
انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم اس بات کی اجازت نہیں دینگے، کوشش کریں ڈی چوک پر جلسہ نہ ہو، اکھٹے بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں، لوگوں کو لاکر کسی ووٹ ڈالنے والے کو روکنے کی اجازت نہیں دینگے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسپیکر پر کوئی اعتراض ہو تو پارلیمنٹ میں اٹھائیں، اسپیکر بھی آئین کا حصہ ہے، اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے کہ حکومت پر امن انداز میں احتجاج کرے گی۔
لارجر بنچ تشکیل، چیف جسٹس کا 24 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت کا حکم
منحرف ارکان تاحیات نااہل ہونگے یا دوبارہ الیکشن لڑ سکیں گے؟ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی جائے، حکومت سپریم کورٹ پہنچ گئی، ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کردیا جس پر عدالت نے معاملے پر لارجر بنچ تشکیل دیدیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے 24 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت کا حکم دے دیا۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا، صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے 4 سوالوں کے جواب مانگے گئے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی کونسی تشریح قابل قبول ہے؟ کیا پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے سے نہیں روکا جا سکتا؟ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا، ایسا کرنے والا تاحیات ناہل ہوگا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا منحرف ارکان کا رکن ووٹ شمار ہوگا یا گنتی میں شمار نہیں ہوگا؟۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے والا رکن صادق اور امین نہں رہے گا، کیا ایسا ممبر تاحیات نااہل ہوگا؟۔
آخری سوال یہ ہے کہ فلور کراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے مزید اقدامات کیا ہو سکتے ہیں؟ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔
صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ معاملے کو سننا چاہتے ہیں، فریقین تیاری سے آئیں، حکومتی اتحادیوں کو نوٹس جاری نہیں کیے، اگر اتحادی اپنی نمائندگی چاہتے ہوں تو گزارشات دے دیں، کوشش کریں گے جلد ریفرنس پر اپنا فیصلہ دیں، صدارتی ریفرنس کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی تاخیر کا شکار نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نے 24 مارچ سے صدارتی ریفرنس پر سماعت کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس دستاویزات نہیں ہے کہ 25 کو اجلاس بلانے کی کیا وجہ ہے بتائیں؟ ہمیں ان وجوہات کو دیکھنے کا جواز نہیں ہے، ایڈوائزر اختیار میں صدارتی ریفرنس آیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئینی تقاضوں کو پورا کرنے نہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، سپریم کورٹ سے کوئی حکم امتناع نہیں مانگ رہے ہیں، صدارتی ریفرنس کی وجہ سے اسمبلی کارروائی متاثر نہیں ہوگی، کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا، ووٹ شمار ہونے کے معاملہ پر ریفرنس میں سوال اٹھایا ہے، ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہو گا یہ ریفرنس میں اصل سوال ہے۔