اسلام آباد:(دنیا نیوز)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا؟اگر سپریم کورٹ کسی کو برطرف کر دے تو قانون سازی سے کسی مخصوص فرد کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ میں 16ہزار برطرف ملازمین کی اپیلوں پر سماعت ہوئی ،اعتزاز احسن اور وسیم سجاد پیش ہوئے۔
دوران سماعت وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ 1996 میں نگران حکومت نے آئی بی ملازمین کو برطرف کیا تھا، نگران حکومت کو برطرفی کا اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایکٹ کو صحیح طریقے سے پرکھا نہیں گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ نہیں کہہ رہا کہ ایک جماعت کے بھرتی کیے ملازمین برطرف کیے جائیں، پارلیمنٹ نے لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا؟۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ نگران حکومت کےمعاملے پرسپریم کورٹ سنہ 2000میں فیصلہ دے چکی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اگر سپریم کورٹ کسی کو برطرف کر دے تو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے کسی مخصوص فرد کو بحال نہیں کیا جا سکتا ہے، ختم شدہ کنٹریکٹ 11سال بعد کیسے بحال ہوگئے،سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے شواہد کہاں ہیں؟۔
وکیل سوئی گیس وسیم سجاد نے کہا پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت ملازمین کو بحال کیا گیا،عدالت پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث منگوا کر جائزہ لے، اس عمر میں ملازمین کہاں جائیں گے؟۔
وکیل افتخار گیلانی نے کہا سپریم کورٹ خود کہہ چکی کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے، قانون سازوں کی بصیرت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلےپر نظر ثانی کرے جبکہ عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی ہے۔