لاہور: (دنیا نیوز) سیالکوٹ میں ہجوم کی جانب سے قتل کیے گئے سری لنکن شہری پریانتھا دیاودھنہ کی اہلیہ کا بیان بھی منظر عام پر آگیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے نیروشی دسانیاکا کہنا تھا کہ ان کے شوہر معصوم تھے، جنہیں بیدردی سے قتل کردیا گیا، انٹرنیٹ پر اس غیر انسانی عمل کو دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ میں سری لنکا کے صدر اور پاکستان کے صدر عارف علوی و وزیر اعظم عمران خان سے منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہوں تاکہ میرے شوہر اور ہمارے دو بچوں کو انصاف مل سکے۔
مقتول کے بھائی کا کہناتھا کہ پریانتھا دیاودھنہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور کمپنی مالک کے بعد ساراانتظام انہوں نے سنبھالا ہے، مقتول کےدوبیٹے ہیں جنکی عمریں 9 اور 14برس ہیں۔
دوسری طرف سری لنکن منیجر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق پریانتھا کی موت دماغ اور چہرے پر ضرب لگنے سے ہوئی۔ تشدد سے پریانتھا کمارا کے جسم کا 99 فیصد حصہ مکمل طور پر جل چکا تھا، بازو کولہے سمیت تمام ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں، پرانتھا کا صرف ایک پاؤں ٹھیک تھا باقی پورے جسم میں ایک بھی ہڈی سلامت نہیں بچی۔
خیال رہے کہ 3 دسمبر کو فیکٹری کے غیر مسلم سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے مبینہ توہین مذہب کا الزام لگا کر حملہ کردیا تھا اسی دوران پریانتھا کمارا جان بچانے کیلئے بالائی منزل پر بھاگے لیکن فیکٹری ورکرز نے پیچھا کیا اور چھت پر گھیر لیا۔
انسانیت سوز خونی کھیل کو فیکٹری گارڈز روکنے میں ناکام رہے، فیکٹری ورکرز منیجر کو مارتے ہوئے نیچے لائے، مار مار کر جان سے ہی مار دیا اور بعد میں لاش کو جلا دیا۔
اس سے قبل پنجاب حکومت نے ابتدائی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دی جس میں بتایا گیا کہ مرکزی ملزمان سمیت اب تک 112 ملزمان گرفتار کئے جا چکے ہیں، سیالکوٹ میں ایسے افراد جنہوں نے اشتعال دلایا، ان کو بھی گرفتار کر لیا، پولیس نے مرکزی ملزمان کی گرفتاری کر کے مزید تحقیقات شروع کر دیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملزمان کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تاکہ مزید تحقیقات کی جا سکیں، فیکٹری مینیجرز کی معاونت سے واقعہ میں ملوث افراد کی شناخت کی گئی۔
وزیر اعلی پنجاب کو ارسال کردہ رپورٹ کے مطابق مار پیٹ کا واقعہ صبح گیارہ بجے شروع ہوا، گیارہ بج کر 25 منٹ پر 3 اہلکار موقع پر پہنچے، واقعے سے کچھ دیر قبل ورکرز کو ڈسپلن توڑنے پر فارغ کیا گیا، مینجر کے سخت ڈسپلن اور کام لینے پر ورکرز پہلے سے غصے میں تھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ چند غیر ملکیوں کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا، مینجر نے ورکرز کو کہا سب مشینیں صاف ہونی چاہیے، مینجر نے مشین پر لگے اسٹکیرز ہٹنانے کا کہا، مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے اسٹکر نہیں ہٹایا تو منیجر نے خود ہٹا دیا، بادی النظر میں ورکرز نے اسٹیکرز کا بہانہ بنا کر تشدد کیا، اسٹیکرز پر مذہبی تحریر درج تھی، واقعہ کے وقت فیکٹری مالکان غائب ہوگئے۔