لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیالکوٹ واقعے پر پوری قوم شرمندہ ہے، جتنی مذمت کی جائے کم ہے، امید ہے ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے گی۔
لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے سیالکوٹ واقعے کی شدید مذمت کی اور ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کی توقعات کا اظہار بھی کیا۔
ای وی ایم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب عمران خان کنٹینر پر کھڑے تھے تب ہم بھی اسمبلی میں اصلاحات منظور کی لیکن اس وقت اپوزیشن کو اصلاحات میں شامل کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کی مکمل نمائندگی تھی، اپوزیشن نے یکجاں ہو کر مقابلہ کیا ہے، اور اس پر میں اپوزیشن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ اور احتجاج کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اجلاس 6 تاریخ کو ہوگا جس میں لانگ مارچ کا فیصلہ کیا جائے گا۔
معیشت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے جو قومیں غلطیاں کرتی ہیں ان آزادی باقی نہیں رہتی، معاشی تباہی کی سب سے بڑی مثال سلطنت عثمانیہ اور سوویت یونین ہے۔ پاکستان میں بھی حالات انتہائی خراب ہے اور یہاں ایک عام شہری کےلیے زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے، اور اگر ہم نے اس کو ختم نہ کیا تو پاکستان خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے معیشت کے فیصلوں کے حوالے سے جو غلطیاں کی ہیں وہ پاکستان کے سامنے ہیں، افراط زر، مہنگائی بیروزگاری پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کر رہی ہیں، کورونا وائرس سے پہلے بھی ان کی کارکردگی کچھ نہیں تھی۔ کورونا کے بعد دنیا کے تمام ممالک میں مہنگائی ہوئی ہے لیکن پاکستان مہنگائی کے حوالے سےدنیا میں تیسرے نمبر پر ہے، پاکستان ایک خداداد ملک ہونے کے باوجود بھی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اگر ہم نے ہنگامی بنیادوں پر اس پر کام نہ کیا تو ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
لیگی صدر کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی کے حوالے سے مجھ سمیت تمام اپوزیشن نے حکومت کو تنبیہہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ خدارا ایک عام شہری کے لیے کام کریں لیکن حکومت نے توجہ نہیں دی۔ جب حکومت کیخلاف بات کی جاتی ہے تو وہ غصے میں آجاتے ہیں اور پھر اس قسم کی زبان کا استعمال کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے اور گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔
ان کا کہنات ھا کہ سابق وزیاعظم نواز شریف کی حکومت ختم ہونے پر پاکستان پر 30 ہزار روپے کی ادائیگیاں اور قرضے تھےاور مہنگائی کا تناسب 3 سے 4 فیصد کے اندر تھی اس کے برعکس موجودہ دور حکومت میں آنے والی آئی ایم ایف کی نئی شرائط نے پوری قوم کو گلے سےجکڑ لیا ہے۔ یقیناً پاکستان کو اس حالت تک لانے میں ہم سب کا کردار ہے لیکن جب اگر ہم موازنہ کریں تو نواز شریف اور اس حکومت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے،جب نواز شریف نے حکومت چھوڑی تواس وقت ملک کی جی ڈی پی 5.8 فیصد تھی اور آج جی ڈی پی سسکیاں لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 2018 میں کہا تھا کہ پاکستان کے 30 ہزار روپے کے قرضوں اور ادائیگیوں میں 10 ارب روپے کی کمی کرونگا لیکن آج صرف 49 ماہ میں 20 ہزار ارب روپے کے قرضے لے لیے گئے ہیں، یعنی یہ قرضے پاکستان کی تاریخ میں لیے گئے قرضوں کے 70 فیصد ہیں۔ ہم نے قرضے لیے اور اس سے ملک کی ترقی کو فروغ کیا بجلی کے منصوبے لگائے پلوشن فری ٹرانسپورٹ کے منصوبے بنائے انہوں نے کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قرضوں کی ادائیگی کی ہے لیکن اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار اس سے متضاد ہیں، بنگلادیش جو ہم نے الگ ہوکر وجود میں آیا اور اس کی جی ڈی پی بھی ہم سے زیادہ ہے۔
تجارتی خسارے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2018 سے آج کا مقابلہ کیا جائےتو ڈالر 55 روپےمہنگا ہوگیا ہے، آج ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ملک میں درآمدات کا سیلاب آچکا ہے، تجارتی خسارہ 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالر پر پہنچ چکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان گندم، چینی اور کپاس برآمد کرتا تھا اور آج ہم امپورٹ کر رہے ہیں، یہ کہنا کہ عمران خان حکومت ایماندار ہے تواس سےبڑا جھوٹ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے ابھی آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری کرنی ہیں،ہم نے اجتماعی طور پاکستان کےلیے سوچنا ہوگا، اگر یہ ہی حالات رہے تو پاکستان کو دفاع کے لیے بھی قرضے لینے پڑیں گے۔