سٹیٹ بینک کو اپنےمقاصد پرعمل کرنےکی خودمختاری دی جائے: ڈاکٹررضا باقر

Published On 26 March,2021 10:49 pm

کراچی: (دنیا نیوز) گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ کابینہ نے جس مسودے کی منظوری دی وہ بل ہے آرڈیننس نہیں، سٹیٹ بینک خود مختاری بل پارلیمنٹ میں بحث کیلئے پیش کیا جائے گا۔ سٹیٹ بینک کو اپنے مقاصد پر عمل کرنے کی خود مختاری دی جائے۔

گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کا دنیا نیوز کے پروگرام ‘’دنیا کامران خان کیساتھ’’ میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ایسا کوئی ملک نہیں جو خوشی سے قرض مانگے، مجبوری میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19 ارب ڈالر نہ ہوتا تو آئی ایم ایف نہ جاتے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غیر جانبدارانہ جائزے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے۔ آئی ایم ایف جائزے سے معاشی سمت کا درست پیغام پہنچا۔ سرمایہ کاری بڑھے گی تو بیروزگاری کا خاتمہ بھی ہو سکے گا۔ آئی ایم ایف سے بہتر تعلقات پر کورونا سے نمٹنے کے اقدامات کیے۔ کورونا میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو 1.4 ارب ڈالر دیئے۔سٹیٹ بینک نے ٹرف روزگار فنانسنگ سکیم ودیگر اقدامات کیے۔ تیسری لہر میں بھی معیشت کی بہتری کے اقدامات کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پیغام ہے کہ معیشت کو کورونا کے اثرات سے بچائیں، ہمیں سب سے پہلے روزگار کو بچانا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان نے سب سے پہلے ایکسپورٹس بہتر کیں۔ کورونا کی پہلی اوردوسری لہر سے بہتر طریقے سے نمٹے، اب کورونا کی تیسری لہر میں معیشت کو اچھے انداز سے سنبھالیں گے۔

گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ سمجھنا ہوگا کہ لوگوں کو آئی ایم ایف کا خوف کیوں ہے؟ آج تک کوئی ملک نہیں ملا جو خوشی سے قرضہ مانگے، آئی ایم ایف سے مجبوری میں رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ماضی کی پالیسیاں ٹھیک نہ ہونا ہماری مجبوری تھی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19 ارب ڈالر نہ ہوتا تو آئی ایم ایف نہ جاتے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد مسائل سے منہ نہیں پھیرا جا سکتا۔ ماضی میں حکومت نے مشکل فیصلوں کو مؤخر کیا۔ ماضی میں وہ کام ہوئے جو معیشت کے حق میں نہیں تھے۔ ماضی میں ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ بیسڈ نہیں رکھا گیا۔ ایکسچینج ریٹ آزاد ہوتا تو ادائیگیوں کا توازن اتنا نہ بگڑتا۔ روپے کی قدرکو مصنوعی سہارادیاگیاجو برقرار نہ رہ سکا۔ روپیہ جب ڈی ویلیو کرنا پڑا تو مہنگائی بھی ہوئی۔ مسائل بروقت حل ہوں تو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ زیر گردش قرضوں کو کم کرنا ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ گردشی قرضوں کی ادائیگی تو کرنی ہے، چاہے ہمارے بچے کریں۔ بجلی کی قیمت بڑھانے کے سوا دوسرا حل ہو تو سب متفق ہونگے۔

گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ ٹرف کی سہولت تاریخ میں پہلے کبھی متعارف نہیں کرائی گئی۔ ٹرف سکیم کے تحت 400 ارب روپے قرضوں کی منظوری دی۔ مارچ کے اختتام پر ٹرف سکیم ختم ہونے کے بعد جائزہ لیں گے۔

ایک اور اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے رضا باقر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ہمارا تعلق کبھی منقطع نہیں ہوا تھا، کورونا میں بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات چل رہے تھے۔ آئی ایم ایف سے ڈائیلاگ کے دوران سکیمیں لائے تھے۔ طے ہوا تھا کہ وہ قرضے دے رہے ہیں تو ہم اقدامات سے آگاہ رکھیں۔ پالیسی ہے کہ آئی ایم ایف کی کسی بات میں وزن ہے تو ہم سنیں۔ مسائل خود حل کرنے کے اہل ہونگے تو کہیں جانا نہیں پڑے گا۔

رضا باقر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے تعلق کے دوران شرح سود تقریباً آدھی کردی۔ لوگوں کے خدشات دور کرنے کیلئے مستقبل کا لائحہ عمل بتایا۔ دو ماہ قبل مانیٹری پالیسی میں لکھا شرح سود جلد نہیں بڑھے گی۔

انہوں نے خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ پاکستانی زرمبادلہ ذخائر 7 ارب سے بڑھ کر 13 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ قرضے لے کر نہیں کیا گیا۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے کیلئے زر مبادلہ کو بڑھایا گیا۔ سات ارب ڈالر ذخائر تھے تو سخت فیصلے کرنے پڑے۔ آئندہ شرح سود بڑھانی پڑی تو بتدریج اضافہ کریں گے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز کی طرح شرح سود نہیں بڑھے گی۔

تعمیراتی شعبے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں تعمیرات کے شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ ہاؤسنگ کو بینک مجموعی پیداوار کا 1 فیصد سے کم قرضہ دیتے ہیں۔ سستا گھر سکیم میں بینکوں کا کردار بڑھانے کے اقدامات کیے۔ ہاؤسنگ فنانس کی ابتدا میں ہی 50 ارب روپے کے قرضے دیئے۔ چھوٹے طبقے کیلئے شرح سود پر سبسڈی دی اور شرائط آسان کیں۔

سٹیٹ بینک کی خود مختاری کے معاملے پر سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بل پاس ہوتے ہی افواہیں چل پڑیں لیکن کابینہ نے جس مسودے کی منظوری دی وہ بل ہے آرڈیننس نہیں، سٹیٹ بینک خود مختاری بل پارلیمنٹ میں بحث کیلئے پیش کیا جائے گا۔ سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم پہلی بار پارلیمنٹ نہیں جا رہی ہیں۔ تیس سال میں چھٹی بار سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم آئے گی۔ 1994ء ، 1997ء ، 2012 ء اور 2015ء میں ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ ایکٹ تبدیل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دوبارہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ پارلیمنٹ کو سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کو واپس کرنے کا اختیار ہے۔ موجودہ ایکٹ کی باڈی میں سٹیٹ بینک کے مقاصد نہیں لکھے گئے۔ مہنگائی میں کمی، مالیاتی استحکام اور معاشی ترقی بینک کے مقاصد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایکٹ میں ترامیم کا جواز سٹیٹ بینک کے مقاصد واضح کرنا ہے۔ سٹیٹ بینک کو اپنے مقاصد پر عمل کرنے کی خود مختاری دی جائے۔ مجوزہ قانون کا مقصد ہے سٹیٹ بینک کے عمل میں مداخلت نہ ہو۔ سٹیٹ بینک سے پوچھا جائے گا کہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے کیا کیا؟ مقاصد ہی واضح نہیں ہوں گے تو جواب دہی کیسے ممکن ہے؟ نوٹ چھاپنے اور حکومت کو قرضہ دینے سے مہنگائی ہوتی تھی۔ ایکٹ میں ترمیم ہونےسے ایسی چیزیں نہیں ہو سکیں گی۔

پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ سازی میں شامل 15 افراد کی تعیناتی حکومت کرتی ہے۔ ترمیم سے تعیناتی میں حکومت کے اختیار پر اثر نہیں پڑے گا۔ سٹیٹ بینک کو ای سی سی کے اجلاس میں طلب کیا جاتا ہے۔ صرف مانیٹری بورڈ ہی نہیں جہاں حکومت اور بینک کا رابطہ ہو۔ رابطے کے لیے نئی کمیٹی بنانے پر حکومت پر کوئی پابندی نہیں، ڈپلیکیشن پر مانیٹری اور فسکل بورڈ کو ختم کرنے کی تجویز دی۔ کہیں یہ تاثر نہ ہو کہ کمیٹی کے کردار کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ قانون کے مطابق مانیٹری پالیسی کے لیے کام کمیٹی کرتی ہے۔ سٹیٹ بینک میں ساری تعیناتیاں حکومت ہی کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہو رہا کہ سٹیٹ بینک میں کہیں اور سے لوگ آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ قرض گیری ختم کرنے کے لیے نظم وضبط کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ ٹیکس بڑھانے کی بجائے سٹیٹ بینک کو نوٹ چھاپنے کا کہنا آسان ہے۔ سٹیٹ بینک پر انحصار سے حکومت مسائل کا حل تلاش نہیں کر پاتی۔ ڈیڑھ سال سے حکومت نے سٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا۔ جوم لک نوٹ چھپوا کر قرضے پورے کرتا ہے، وہاں مہنگائی ہوتی ہے۔

سٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا کہ ماضی میں حکومت نے بار بار نوٹ چھپوائے، جس کے آج بھی اثرات ہیں۔ موجودہ مہنگائی مانیٹری پالیسی نہیں، انتظامی امور کی وجہ سے ہے۔ حکومت سٹیٹ بینک سے نوٹ چھپواتی تو مہنگائی زیادہ ہوتی۔