شہباز کی بعض سرگرمیوں اور روابط سے حکومت پریشان؟

Last Updated On 03 June,2020 09:38 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے صدر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی نیب کے چھاپے اور ان کے ہاتھوں عدم گرفتاری ایک بڑے ایشو کے طور پر سامنے آئی ہے۔ نیب نے انہیں منی لانڈرنگ اور اپنی بیوی کے نام اثاثے بنانے کے الزام میں گزشتہ روز طلب کر رکھا تھا مگر وہ اپنی طبیعت اور کورونا سے پیدا شدہ صورتحال کو جواز بناتے ہوئے پیش نہ ہوئے اور اپنے نمائندے کے ذریعے اثاثہ جات کی تفصیلات نیب کو بھجوانے کے ساتھ اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔ جس کی آج سماعت ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف کیونکر نیب کے سامنے پیش ہونے سے گریزاں ہیں؟۔ نیب کا چھاپہ کیوں کامیاب نہ ہو سکا۔ ان کی گرفتاری کیلئے ٹائمنگ کی اہمیت کیا ہے اور مجوزہ گرفتاریوں کے اس عمل کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے۔ نیب ایک قانونی اور آئینی ادارہ ہے مگر سیاسی بدقسمتی یہ رہی کہ اس کی جانب سے تحقیقاتی کارروائیوں اور مقدمات کو ہمیشہ متاثرین سیاسی انتقام سے تعبیر کرتے رہے جس کی وجہ سے یہ عمل نتیجہ خیز نہ ہو سکا۔

جہاں تک شہباز شریف کے خلاف کارروائی اور مقدمات کا سوال ہے تو اس کا فیصلہ تو عدالتوں میں ہوگا لیکن یہ تاثر عام ہے کہ حکومت خصوصاً وزیراعظم عمران خان بعض وفاقی وزرا اور ذمہ داروں نے انہیں ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی بڑی وجہ شہباز شریف کی بعض ایسی سرگرمیاں اور روابط ہیں جنہوں نے حکومت کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت میں وہ حکومت اور وزیراعظم کے مقابل کے طور پر گنے جاتے ہیں لہٰذا انہیں ٹارگٹ کرنا اور دیوار سے لگانا حکومت کی بڑی ترجیح لگتا ہے کیونکہ اس حوالہ سے عمران خان کا چند روز قبل یہ بیان کہ ان کے خلاف مصدقہ ثبوت مل چکے ہیں اور وفاقی وزیر شیخ رشید کے یہ بیانات کہ وہ بڑے ٹارزن بنے پھرتے ہیں، عیدالفطر کے بعد ان سمیت بڑی گرفتاریاں ہوں گی کے بعد یہ تاثر نمایاں ہو رہا تھا کہ اپوزیشن خصوصاً شہباز شریف ان کا ٹارگٹ ہوں گے۔ شہباز شریف کے گھر چھاپے کے بعد اعلیٰ سطحی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں بھی جاری ہیں کہ حکومتی فرمائش پر ضابطے کی کارروائی تو عمل میں لائی گئی مگر شہباز شریف بچ نکلے۔

شہباز شریف نے ہائیکورٹ سے کیوں رجوع کیا اس کی بڑی وجہ ان کے حوالے سے جاری وارنٹ تھے۔ عدالت عالیہ میں کارروائی کے باوجود یہ سوال قومی سطح پر زیربحث رہے گا کہ ایک طرف کورونا کے حوالے سے پیدا شدہ غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال اور دوسری جانب بجٹ اجلاس کی تیاریوں کی کیفیت میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور دیگر کی گرفتاریوں کا کیا جواز ہے ؟ حکومت شہباز شریف کے گرد قانونی شکنجہ کسنے پر اس لئے کاربند ہے تاکہ ان کی سرگرمیاں اور رابطے اس کیلئے کسی بڑی مصیبت کا باعث نہ ہوں اور بجٹ اجلاس بخیر خوبی گزارا جائے۔ جہاں تک احتسابی عمل کا سوال ہے تو نیب کی کارروائیوں اور مقدمات کے باوجود سیاسی سطح پر یہ تاثر نمایاں ہوتا نظر آ رہا ہے کہ حکومت سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کے ایجنڈا پر گامزن ہے اور اس مقصد کیلئے نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیب کی ساکھ کو اتنا نقصان اپوزیشن کی تنقید سے نہیں پہنچا جتنا خود حکومتی ذمہ داران کے بیانات کے باعث ہوا ہے۔

یہ بڑا سوال سنجیدہ حلقوں کے سامنے موجود ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت میں بھی آزادانہ اور شفاف احتساب ممکن نہ ہوا تو کسی بھی سیاسی حکومت میں یہ خواب حقیقت نہیں بن سکے گا۔ مسلم لیگ ن کے حلقے شہباز شریف کی گرفتاری میں نیب کی ناکامی کو اپنی سیاسی کامیابی قرار دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے اس کارروائی کے ذریعے عوام کو ہم یہ باور کروانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ٹارگٹ اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن اور شہباز شریف ہیں، حکومت شہباز شریف کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ شہباز شریف کی گرفتاری کیلئے چھاپہ اور اس میں ناکامی کے عمل سے یہ ظاہر ہوا کہ گرفتاریاں تو ہوں گی مگر یہ عمل صرف اپوزیشن تک محدود رہا اور حکومت میں موجود نیب زدہ افراد کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو احتسابی عمل پر کوئی یقین نہیں کرے گا اور اس سے خود احتسابی کے ادارے کی ساکھ متاثر ہوگی۔ آئندہ کچھ روز تک صورتحال مزید واضح ہو جائے گی کہ احتساب کے تازہ ریلے میں سیاسی میدان کے اندر کس کا کیا بچتا ہے اور کیا بہہ جائے گا۔ اب شہباز شریف پر بھی لازم ہو چکا ہے کہ وہ حقیقی اپوزیشن لیڈر بنیں اور میدان عمل میں پریشان حال عوام کیلئے متحرک ہوں۔ شہباز شریف نے اگر مفاہمت کا یکطرفہ آپشن اپنے آپ تک محدود رکھا تو پھر عوام کے اندر ان کیلئے تائید آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔