قومی اسمبلی میں الزام تراشیاں کر کے وقت ضائع کر دیا گیا

Last Updated On 15 May,2020 09:19 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس بلانے کی درخواست پر ہونے والا پارلیمنٹ کا اجلاس ایک بار پھر سیاسی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا۔ بدقسمتی سے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی وزیر اعظم نے اپنی دیگر اہم امور کی سرگرمیوں اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ڈاکٹروں کی ہدایت پر اجلاس میں شرکت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ حالانکہ اس وقت جو ملک میں کرونا کا بحران چل رہا ہے اس میں ہمیں سیاسی محاذ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک بڑا سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ مگر ہم نے دیکھا کہ پارلیمنٹ کے اس حالیہ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ایک دوسرے پرالزا م تراشیاں کر کے وقت کو برباد کیا اور کوئی مثبت عمل ہمیں دیکھنے کو نہیں مل سکا۔

حالانکہ ضرورت تھی کہ وزیر اعظم اس اجلاس میں خود شریک ہوتے اور اپوزیشن جماعتوں کو خود دعوت دیتے کہ وہ اس بحران میں حکومت کا ساتھ دیں۔ حالانکہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے منصب کو سنبھالتے ہوئے یہ یقین دلایا تھا کہ وہ مسلسل پارلیمنٹ میں آئیں گے اور سوالوں کا جواب بھی دیں گے۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان نے بھی پارلیمنٹ کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی او روہ بہت کم پارلیمنٹ میں آئے۔ یہ پاکستان کی سیاست کی بدقسمتی ہے کہ ہم مشکل بحرانوں میں بھی ایک ہو کر کام کرنے کی بجائے اپنی اپنی جنگ لڑتے ہیں اور اس کا نتیجہ عملاً ایک بڑی سیاسی محاز آرائی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو سمجھنا چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ کا موجودہ اجلاس غیر معمولی تھا او رخاص طور پر کورونا بحران کے حوالے سے طلب کیا گیا تھا مگر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے طرز عمل نے ظاہر کیا کہ ہم سب پر قومی مسائل کے مقابلے میں سیاست بالادست ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وفاق اور صوبے واقعی کورونا کے بحران کے حوالہ سے خود بھی کنفیوژ ہیں اور دوسروں کو بھی کنفیوژ کر رہے ہیں۔ اس پریشانی کے خاتمہ میں حکومت کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے اور لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان جاری رسہ کشی لوگوں کو اور زیادہ بحران میں مبتلا کرے گی۔ حالانکہ یہ وقت تھا کہ ہماری وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں مل کر کوئی ایسا منصوبہ بناتی جو لوگوں کی معاشی زندگی میں موجود مشکلات کو کم کرنے کا سبب بنتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے احساس پروگرام سمیت دیگر پروگراموں کی مدد سے لاکھوں لوگوں کو امداد دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ کورونا کے بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی بنانے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کو طاقت اور ڈر کی بنیاد پر دیوار سے لگانا چاہتی ہے۔ حکومت نیب کو ایک بڑا سیاسی ہتھیار اور سیاسی انجینئرنگ کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس کا مقصد اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنا ہے۔ حالانکہ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ مشترکہ طور پر حالیہ بحران سے نمٹنے کا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ چودھری برادران کو بھی اندازہ ہورہا ہے کہ حکومت بحران کا شکار ہے اور اس کی ایک حد سے زیادہ سیاسی حمایت کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم چوہدری برادران کے عمل میں اپوزیشن کا کردار بھی دیکھ رہے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ عید کے بعد جو سیاسی ماحول گرم ہوگا اس میں چوہدری برادران کا بھی اہم کردار ہوگا۔ کیونکہ چوہدری برادران کو گلہ ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت بھی ان کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے جو ان کو قبول نہیں۔ ق لیگ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر طارق چیمہ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور اپنی لیڈر شپ کے گلے شکوے، شکایات ان کے گوش گزار کیں جن پر انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ کیس کس نے کھلوائے، تحقیقات کریں گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ تحقیقات سے کیا نکلتا ہے۔ اس وقت وزیراعظم سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے ساتھیوں کو روکیں کہ وہ بحران پیدا کرنے کی بجائے اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن سیاسی جماعتوں میں جو ایک دوسرے کے بارے میں بداعتمادی پائی جاتی ہے وہی اس وقت ملک کے لیے ایک بڑے بحران کی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ اس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی کا جائزہ لے کر متفقہ فیصلہ سازی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ سیاست کرنے کے لیے بہت وقت ہے اس وقت تو ہماری بطور قوم اصل ذمہ داری اس کرونا کے بحران سے نمٹنے کی ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت واقعی کرونا بحران کے حوالے سے ملک ایک بڑے بحران کا شکار ہے اور ایسے میں ہمیں غیر معمولی اقدامات کی طرف بڑھنا ہوگا اور یہ کام اتفاق رائے کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس ہم نے ہمیشہ کی طرح محاز آرائی کی سیاست کو بنیاد بنا کر ہی ایک دوسرے کے خلاف اپنی سیاست کو جاری رکھا اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے کا انکار کیا تو اس کی یقینی نتیجہ ملک کو ایک بڑے بحران کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔