لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے کورونا کی تباہ کاریوں اور معیشت پر ہونے والے اس کے مضر اثرات پر عالمی قوتوں کی توجہ مبذول کراتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کا تو اس چیلنج سے نمٹنے کے حوالے سے ردعمل ایک ہے مگر اس وبا کے نتیجہ میں ترقی پذیر ممالک کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے۔ دوسری جانب ورلڈ بینک نے بھی یہ خطرہ اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان و دیگر پر کورونا کے خطرناک نتائج سامنے آنے والے ہیں جس میں ان کی معیشت کو سنبھالا دینا ممکن نہ ہوگا لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا پڑے گا کہ وزیراعظم عمران خان کی عالمی طاقتوں سے اپیل کس حد تک کارگر ہو گی۔
جہاں تک وزیراعظم عمران خان کے ویڈیو پیغام اور اس پر عالمی برادری کے ردعمل کا سوال ہے تو وزیراعظم پاکستان نے دراصل یہ کیس پاکستان کا نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک کا پیش کیا ہے اور عالمی قوتوں کو باور کرایا ہے کہ اس مشکل صورتحال میں ہم کورونا جیسے چیلنج کا مقابلہ کریں یا اپنے عوام کی بھوک ننگ کی فکر کریں۔ اس صورتحال میں آپ کو صرف اپنے عوام کیلئے ہی کردار ادا نہیں کرنا بلکہ ترقی پذیر ممالک کے عوام کی فکر بھی کرنی ہوگی اور آج کی دنیا میں ایسا ممکن نہیں کہ جب ایک عالمی وبا اور اس کے خلاف عالمی جنگ کا سلسلہ جاری ہے تو وہ ترقی پذیر ممالک خصوصاً غریب ممالک کے مسائل سے صرف نظر کر سکے البتہ یہ موقع وزیراعظم عمران خان کے پاس ہے کہ وہ اپنے اس کیس کو انفرادی طور پر کرنے کی بجائے ایک اچھی دلیل کے طور پر دیگر ممالک کو بھی ساتھ ملائیں اور دنیا کے سامنے کیس رکھیں اور یہ کیس پر منحصر ہوگا کہ دنیا کیسے اور کتنا آپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔
دوسری جانب اگر عالمی منظر نامہ پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کے حملہ نے دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کی صلاحیتوں کو بھی بری طرح بے نقاب کیا ہے کہ وہ بڑے حادثات سے نمٹنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ کورونا کے حملہ کے سامنے بڑی بڑی سپرپاور ڈھیر ہوتی نظر آئیں۔ عالمی طاقتوں کے سامنے اب بڑا چیلنج سکیورٹی یا جنگوں پر مبنی ریاستوں کی بجائے انسانوں سے جڑی ریاستوں کی بحث ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بروقت یہ پیغام عالمی برادری کو دیا ہے اور عالمی قوتوں اور عالمی اداروں کو مل کر سوچنا ہوگا کہ نہ تو ترقی پذیر ممالک کو گرنے دینا چاہیے اور نہ ہی اس کے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا جانا چاہئے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ آج کی اس مشکل کیفیت میں ترقی پذیر اور غریب ممالک ان کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ خود بڑے ممالک بھی متاثرہ ممالک میں شامل ہیں اور ان کی معیشت بھی تباہ ہوئی ہے۔ ایسے میں وہ کیا کر سکیں گے ، یہ بھی بہت اہم سوال ہے لیکن ان کی معیشت کی بحالی اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اب دنیا کے ورلڈ آرڈر میں انسانیت، امن اور ترقی کے بیانیہ کو ترجیح دینی ہوگی۔
کورونا وائرس کی وبا اور بلا کا بڑا سبق یہی ہے کہ اب انسانوں پر سرمایہ کاری کی جائے اور اپنے سماجی اور معاشی شعبوں میں عوام سے جڑے معاملات میں ایسے انتظامات اور ادارے تشکیل دے جو لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں۔ سرمایہ داری سسٹم نے غریب اور کمزور ملکوں کو جکڑ لیا ہے اور ان غریب ملکوں کے سماجی ڈھانچے قابل رحم ہیں۔ پاکستان کورونا کی و با کا شکار ہے اس سے نمٹنے میں ہمارے سماجی اور معاشی ڈھانچے ثابت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور یہاں حکومت اور ریاست عام آدمی کے مسائل خصوصاً تعلیم’ صحت اور سہولتوں کے مسائل میں بہت پیچھے کھڑی نظر آتی ہیں اور ہمارے طرزعمل نے ان شعبوں کا کس بری طرح استعمال کیا اور تباہ کیا یہ ڈھکا چھپا نہیں۔ دنیا اس کورونا سے سبق سیکھتی ہے یا نہیں کم از کم جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان اور بھارت کو اپنے موجودہ طرزعمل پر نظرثانی ضرور کرنی چاہئے کیونکہ دونوں ممالک کے چیلنجز ایک جیسے ہیں۔ دونوں غربت، جہالت، پسماندگی کی آگ میں جل رہے ہیں مگر آپس کی محاذ آرائی اور کشمکش کے باعث دونوں اپنے عوام پر توجہ نہ دے سکے لہٰذا یہی وقت ہے کہ عوام کی زندگیوں کو بنیاد بنا کر اس خطہ میں ترقی و خوشحالی، سلامتی اور امن کی بنیاد پر آگے بڑھا جا سکتا ہے اور دونوں کے درمیان متنازعہ ایشوز پر بیٹھ کر بات ہو سکتی ہے اور یہی ان کیلئے نوشتہ دیوار ہے، آنے والا وقت بہت کڑا ہے۔ کورونا کے اثرات سے پیچھا چھڑانا ممکن نہ ہوگا۔
اگر اسلام آباد بعض اہم اور بنیادی فیصلوں پر اتحاد و یکجہتی قائم کر پاتا ہے تو کورونا کا بحران واقعاتاً ایک نئے پاکستان کی بنیاد بن سکتا ہے لیکن اس کیلئے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑنی ہوگا۔ ایک ایک قدم پیچھے کی جانب اٹھا کر اپنی سیاست پر پاکستان اور اس کی معیشت کو ترجیح دینی پڑے گی لیکن اگر وزیراعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ اندرونی اور بیرونی محاذ پر سولو پرواز کر کے پذیرائی حاصل کر پائیں گے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ بڑے مقاصد اور بڑے نتائج کیلئے دل بڑا کرنا پڑتا ہے اور اگر بندہ یا حکمران اپنی ذات کا اسیر ہو کر یہ سوچے کہ وہی عقل کل بن کر مسائل پر قابو پا سکتا ہے تو ایسے حکمرانوں اور ان کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جنہیں اپنے انجام سے کوئی نہ بچا سکا۔