ملک میں کوئی غیر یقینی صورتحال نہیں: تھنک ٹینک

Last Updated On 20 January,2020 08:55 am

لاہور: (دنیا نیوز) شریف برادران خصوصاً شہباز شریف کی لندن سے واپسی کا امکان کیا ہے ؟ مریم نواز کب چپ کا روزہ توڑیں گی ؟ ن لیگ کا حکومت کیخلاف جارحانہ رویہ کیوں رہا ؟ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی تقسیم کا سدباب ہوسکے گا ؟۔

اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار ایاز امیر نے میزبان سید ہ عائشہ ناز سے پروگرام  تھنک ٹینک  میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کوئی غیر یقینی صورتحال نہیں ہے، تمام معاملات ٹھیک جا رہے ہیں، ن لیگ اپنے ٹکٹ کٹوا کر لندن پہنچ چکی ہے، کئی باقاعدہ عدالتوں سے اجاز ت لیکر گئے ہیں، نواز شریف کے جانے سے پہلے جورپورٹس آرہی تھیں ، ان سے لگتا تھا کہ جیسے میڈیکل ایمر جنسی لگنے والی ہے لیکن وہاں جانے کے بعد وہ صورتحال ختم ہوگئی، ن لیگ والوں کو لندن کے ایک ایسے راستے کا پتہ ہے کہ ان کی آنکھیں بھی بند کر دیں تو یہ وہاں پہنچ جائیں گے، ن لیگ اس وقت پاکستان کی سیاست میں غیر فعال ہے کل ان کوچوتھی باری مل جائے تو اور بات ہے۔

ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ سیاسی قوتوں پر اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، اس وقت آٹے کے بحران پر سیاسی جماعتوں میں لاتعلقی پائی جاتی ہے۔ آج کل پاکستان کے جو حالات ہیں ہر آنیوالے دن میں مسائل بڑھ کر سامنے آرہے ہیں لیکن نہ حکومت کو مسائل کا ادراک ہے اور نہ اپوزیشن عوام کی زبان بن کر سامنے آرہی ہے، ن لیگ میں جتنی بھی غیر یقینی صورتحال ہو لیکن ان کا ایک بھی قومی یا صوبائی اسمبلی رکن ن لیگ سے ٹوٹ نہیں سکا اور کسی نے بھی نواز شریف یا شہباز شریف کی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔

ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ن لیگ ختم ہوجائیگی، یہ قائم تو رہے گی لیکن ن لیگ اس وقت تحریک انصاف کا متبادل نہیں ہے، ن لیگ کے صوبے یا وفاق کی سطح پر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے، اس وقت ن لیگ کو اندرونی مسائل ہیں، ایک قیادت کا مسئلہ ہے اور دوسرا سمت کا مسئلہ ہے، ن لیگ کی اصل قیادت لندن بیٹھی ہوئی ہے، اس وجہ سے پچھلے دنوں سے مختلف ن لیگی رہنمائوں کی تقریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اس پارٹی کو لیکر شہباز شریف چلیں گے، مریم نواز چلیں گی یا کوئی اتحاد لیکر چلے گا۔

اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہا کہ لندن میں سیاستدان ملیں گے تو تبصرہ بھی ہوگا، مسلم لیگ ن کی تاریخ دلچسپ ہے، نواز شریف کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد عملیت پسندی شروع ہوتی ہے، جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے پرویز الٰہی کی جگہ شہباز شریف کو وزیر بنا دیا، پھر مشرف دور میں ماریں جاوید ہاشمی نے کھائیں اور اپوزیشن لیڈر چودھری نثار کو بنا دیا، پھر جب چودھری نثار نے سمجھانے کی کوشش کی تو مریم نواز کی مانی گئی اور چودھری نثار سائیڈ لائن ہوگئے۔ اب پوری شریف فیملی باہر اور سیکنڈ لائن قیادت کو دفاع کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ بیچارے صفائیاں پیش کرتے پھر رہے ہیں، یہ گڈ کوپ اور بیڈ کوپ کی گیم کھیلتے رہتے ہیں لیکن اس بار 2020 میں صورتحال مختلف ہے لیکن سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ صورتحال میں چودھری برادران ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھیں گے، ن لیگ کے زیادہ اختیارات شہباز شریف کے پاس نہیں رہے۔