شہباز شریف عملی سیاست سے کنارہ کشی کر سکتے ہیں

Last Updated On 15 October,2019 08:43 am

لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) 27 اکتوبر کو وہ پورے ملک میں آزادی مارچ کا آغاز کریں گے اور اکتوبرکے اختتام میں اسلام آباد پہنچیں گے۔ وہ اسے دھرنے کا نام نہیں دے رہے لیکن وہ کسی بھی صورت اپنے آزادی مارچ کو موخر یا ملتوی کرنے کو تیار نہیں، پاکستان مسلم لیگ ن نے بارہا کہا ہے کہ مولانا اپنے اس مارچ کو ملتوی کر دیں یا اس کی تاریخ آگے بڑھا دیں مگر مولانا نہیں مانے۔ اب اس معاملے میں نیا موڑ آچکا ہے، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کھل کر آزادی مارچ کی حمایت کر دی، مسلم لیگ ن کی وہ لیڈر شپ جو جیل میں نہیں وہ ایک وسوسے کا شکار ہے اور ایک گومگو کی کیفیت سے دو چار ہے۔ وہ شاید اس قسم کی کسی مزاحمت کی حامی نہیں، وہ رہنما جو گھروں میں رہ رہے ہیں، سکون سے آجاسکتے ہیں۔ بیرون ملک آجاسکتے ہیں، وہ شاید اپنی اس آزادی پر کمپرومائز نہ کرنا چاہیں گے یا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کسی قسم کی مزاحمتی تحریک چلانے کا نہیں لیکن یہ صورتحال بدل گئی جب کوٹ لکھپت جیل سے شہباز شریف کے نام نواز شریف کا لکھا گیا خط منظر عام پر آگیا اور اس کی خبر خود نواز شریف نے بریک کی، نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کے مارچ کو کامیاب بنانے کا حکم جاری کر دیا۔

اس خط میں نواز شریف نے لکھا۔ ڈیر شہباز بھائی  آزادی مارچ میں شرکت سے متعلق آپ براہ مہربانی ایک جامع پروگرام ترتیب دیں اور اس کا باقاعدہ اعلان کریں، یہ کھڑے ہونے کا وقت ہے، ہر مصلحت ایک طرف رکھ کر اپنا حق منوانے کا وقت ہے، بات اگر قومی غیرت، خود داری اور عزت نفس تک آپہنچے تو بہادری سے اس کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوں۔ یہ شہباز شریف کے لئے نواز شریف اور اپنی پارٹی کا براہ راست پیغام تھا، خط کے پس منظر میں ہفتے کو شہباز شریف کے گھر ن لیگ کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں شہباز شریف کے ہم خیال چند اہم رہنماؤں نے شرکت نہیں کی۔ یہ بات نوٹس کی گئی کہ پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق، سابق گورنر محمد زبیر، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید اور کئی دیگر اہم رہنما اس مشاورت میں شریک نہیں تھے جس کے بعد پارٹی کے اندرونی اختلافات کی پارٹی ترجمان مریم اورنگ زیب نے تصدیق بھی کر دی۔ انھوں نے بتایا کہ پارٹی میں رائے تقسیم ہے۔

آج ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ شہباز شریف کوٹ لکھپت جیل گئے جہاں پر انھوں نے اپنے صاحبزادے حمزہ سے تفصیلی ملاقات کی ہے، اس پس منظر میں چہ میگوئیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ بعض اہم ذرائع یہ کہتے ہیں کہ یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ شہباز شریف فی الحال عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ کسی صورت بھی مزاحمتی تحریک میں مسلم لیگ ن کی قیادت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن سے ملنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور وہ اپنے آپ کو سیاست سے کنارہ کش کرنے کا اعلان بھی کرسکتے ہیں یہ بڑی اہم بات ہے کہ شہباز شریف آج حمزہ شریف سے بات کرنے کے لئے کوٹ لکھپت جیل تو چلے گئے لیکن گذشتہ جمعرات کو شہباز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ وہ کمر کے شدید درد میں مبتلا ہیں اس کی وجہ سے وہ کوٹ لکھپت جیل نہیں جاسکتے نہ ہی نواز شریف کی عدالت میں پیشی کے موقع پر شہباز شریف وہاں موجود تھے جس کو تجزیہ کاروں نے بہت ہی دلچسپی سے نوٹ کیا ہے شاید شہباز شریف آزادی مارچ کا بوجھ اٹھانا نہیں چاہتے ویسے بھی مسلم لیگ ن لڑائی کے موڈ میں نہیں۔

اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کی رائے اور تجزیہ کئی معاملات پر نواز شریف سے مختلف رہا ہے لیکن اب جو صورتحال ہے اور نواز شریف نے شہباز شریف کو تفصیلات طے کرنے کی ہدایت کی ہے نواز شریف یہ چاہتے ہیں کہ دھرنے کی اونر شپ تمام متحدہ اپوزیشن لے۔ تمام جماعتیں اکٹھی ہو کر اس میں شریک ہوں اور دوسری جماعتوں کو بھی اپنا ہمنوا بنائیں۔ نواز شریف نے آزادی مارچ میں ن لیگ کی شرکت کی بات دو ٹوک انداز میں کردی لیکن اس کے بعد کچھ جزئیات کی بھی نشاندہی کی ہے اور ان کا اور ن لیگ کے اکثر رہنماؤں کا یہ خیال ہے یہ آزادی مارچ ایک جماعت کا مارچ بن کر نہ رہ جائے، شہباز شریف کے لئے کمر کھولنا بھی اب ممکن نہیں رہا، اگر ن لیگ فیصلہ کرتی ہے تو انھیں کمر کسنی پڑے گی لیکن بنیادی بات ہے کہ ادھوری کوشش نہیں ہونی چاہیے اگر نامکمل کوشش ہو گی اور تمام جماعتیں پورے عزم کے ساتھ شریک نہیں ہوں گی اور یہ اہداف حاصل نہ کرسکے تو حکومت کو مزید توانائی مل جائے گی۔ ن لیگ ایک بڑی جماعت ہے وہ تحریک انصاف کا متبادل ہے، پھر جو صدمہ پہنچے گا، اسی کو پہنچے گا۔