لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق گو کہ باقاعدہ اعلان نہیں ہوا لیکن واضح طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی ثالثی کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے اور یہ ثالثی امریکا کے صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔ تمام واقعات اور شواہد بتا رہے ہیں کہ یہ عمل شروع ہو چکا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چار دنوں کے درمیان وزیر اعظم عمران خان کو دو مرتبہ اور بھارتی وزیر اعظم مودی کو ایک مرتبہ تفصیلی ٹیلیفون کال کی گئی، ان فون کالز کا مرکز و محور کشمیر کی صورتحال اور پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی اس کا موضوع رہی ہے، اس طرح سے بنا اعلان کئے امریکی صدر ٹرمپ کشمیر کے معاملے پر مودی اور عمران خان سے رابطے میں ہیں۔
یہ بھی اطلاع ہے کہ دو اہم عرب ممالک بھی اس معاملے میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ دونوں عرب ملکوں کے پاکستان کے ساتھ برادرانہ اور تعلقات کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں، دونوں عرب ممالک اس معاملے میں بڑے فعال طور پر دلچسپی لے رہے ہیں۔ ایک بین الاقوامی ماحول بن چکا ہے اور اس کی ابتدا چند رو ز پہلے ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس سے ہوئی ہے۔ سلامتی کونسل میں 50 سال بعد عالمی قوتوں نے مسئلہ کشمیر پر بات کی، اس حوالے سے عالمی برادری بیٹھی ہے اور بھارت کی کوششوں کے باوجود سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ہے۔ جن ملکوں نے ان کوششوں کو ناکام بنایا ان میں چین کے ساتھ روس بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے سال کا مقبول ترین فیصلہ کیا اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے ساتھ اپنے مثالی ٹیم ورک کو تسلسل دینے کے لئے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی ہے اس کی بڑی زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ اپوزیشن کی کسی جماعت کی ٹاپ لیڈر شپ نے اس فیصلے پر تنقید نہیں۔
میزبان کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کے لئے یہ بڑے اطمینان کی بات ہے کہ کسی ایک مسئلہ پر تو قوم متحد ہے اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہے اس وجہ سے اس کے معیشت پر اچھے اثرات نظر آرہے ہیں اس کا بھرپور اظہار سٹاک ایکس چینج انڈیکس میں ہوا ہے۔ اس حوالے سے معروف بزنس مین عارف حبیب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل باجوہ کی توسیع کے فیصلے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی۔ ممتاز صحافی اور نامور براڈ کاسٹر نعیمہ احمد مہجور نے دنیا کامران کے ساتھ میں لندن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھ لیں کہ 4 اگست کو ایک الگ دنیا تھی لیکن 4 اور 5 اگست کی شب کو وادی دنیا سے بالکل کٹ کے رہ گئی اور یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کیا پڑوسی وہیں ہیں یا چلے گئے ہیں۔ خوف کا ایک عجیب سا ماحول تھا، ہم گھر کے اندر بیٹھے تھے اور یہ پتہ نہیں تھا کہ ہمارے بچے اور رشتے دار کہاں ہیں کسی سے کوئی رابطہ نہ تھاحتیٰ کہ ان دنوں میں اپنے پڑوسیوں سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اب کشمیر کی صورتحال انتہائی بدترین ہے۔