فوج اورسویلین حکومت کا اشتراک:معیشت اور خارجہ امور پر مسلسل پیش رفت

Last Updated On 16 July,2019 09:03 am

لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ) پہلی بار پاک فوج معاشی بحالی کو قومی سلامتی کی ترجیح اوّل قرار دے کر اس مشن میں وزیر اعظم عمران خان سے جڑ گئی ہے۔ معیشت کاروبار اور سرمایہ کاری سے جڑی پاکستان کی چوٹی کی شخصیات اچھی طرح جانتی ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس سوچ کو پروان چڑھا رہے ہیں کہ قومی سلامتی کو نا قابل تسخیر بنانے کیلئے معیشت کو ناقابل تسخیر بنانا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی سویلین حکومت کے دور میں مشیر خزانہ چیئرمین ایف بی آر اور گورنر سٹیٹ بینک کو آرمی چیف تک براہ راست رسائی حاصل ہے۔ رینجرز کو معیشت کے ان بڑوں کی ذاتی سکیورٹی پہلے ہی سونپی جا چکی ہے۔

معیشت کو نا قابل تسخیر بنانے کا ہی عمل ہے کہ سویلین حکومت اور فوج کا خارجہ پالیسی پر بھی مثالی اشتراک عمل سامنے آیا ہے آج تمام عالمی قوتوں کو یقین ہے کہ جب وہ وزیر اعظم عمران خان سے بات کرتی ہیں تو انکو آرمی چیف کی سو فیصد حمایت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید کے اس اشتراک نے آج پاکستان کو امریکا افغانستان اور روس کے ساتھ ایک بریک تھرو کے قریب پہنچا دیا، چین بے انتہا خوش ہے کہ آج جب پاکستان کی سول بیوروکریسی کے ساتھ سی پیک کا کوئی میچ پھنس جاتا ہے تو وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ بھی ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔

دوسری جانب سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ، متحدہ عرب امارات کے محمد بن زید اور امیر قطر شیخ تمیم بن حماد بن ثانی اب وزیر اعظم عمران خان اور جنرل باجوہ کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہیں۔ عمران خان جنرل باجوہ مثالی ذہنی ہم آہنگی کا بڑا فائدہ فروری میں ہوا جب پاکستان نے بھارتی محاز آرائی کا منہ توڑ جواب بھی دیا۔ آج شاندار سول ملٹری اشتراک کا فائدہ ان کوششوں کو ہو رہا جس کا مقصد پاکستان کا انتہا پسند مسلح گروہوں سے چپکے ہوئے امیج سے چھٹکارا دلانا ہے۔ یہ وہ محاذ ہے جس پر کامیابی ملک کا وقار پوری دنیا میں بحال کرے گا۔

فیٹف سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹے گی اور عالمی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگائے گا، پاکستان میں معیشت کا پہیہ چل پڑے گا مگر اس پورے بہتری کے ماحول کو ایک خطرہ لاحق اور اسکا تعلق اس امر سے ہے کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت نومبر میں پوری ہو نے کو ہے، یہ وہ وقت ہے جب معاشی بہتری کے اقدامات کی ابتدا ہوئی ہے افغان مسئلہ حل کی جانب بڑھ رہا ہے، فیٹف خطرہ ٹلا نہیں ہے انتہا پسندی کو لگام دینے کی پالیسی نازک موڑ سے گزر رہی ہے ، بہت ہی حساس ماحول ہے ، نہیں معلوم نئے آرمی چیف کی ترجیحات کیا ہوں گی، نہیں معلوم کہ وہ معیشت سمیت دوسرے غیر فوجی امور میں عمران خان حکومت کی اسی انداز میں معاونت کریں گے جیسی معاونت جنرل باجوہ کی جانب سے سامنے آئی ہے ، قطع نظر اس کے کہ نئے چیف کی ترجیحات کیا ہوں گی تمام جاری معاملات میں یقینی طور پر ایک وقفہ تو آ ہی جا ئے گا۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کرتے ہیں یا ایک نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کرتے ہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پاکستان میں ایک معمول کا عمل رہا ہے، ماضی میں کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے پاکستان کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہیں تمام قرائین بتاتے ہیں کہ جنرل باجوہ کی آرمی چیف کی حیثیت میں تسلسل سے پاکستان معاشی، خارجہ اور قومی سلامتی کے میدان میں کلیدی منازل ایک سے دو سال میں عبور کر سکتا ہے فیصلہ بہر حال وزیر اعظم عمران خان کا ہی ہوگا۔ ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ عمران خان نے فیصلہ کر لیا ہے اور یہ پاکستان کے حق میں بہترین فیصلہ ہے۔

اسی ماحول میں ایک بڑی اہم پیش رفت ہوئی ہے، وزیر اعظم عمران خان ہفتے سے امریکا کے پانچ روزہ پہلے سرکاری دورے پر جا رہے ہیں، وزیر اعظم کے ساتھ وفد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی شامل ہوں گے گویا کہ امریکا کے لئے ایڈ نہیں ٹر یڈ پیغام ہو گا، ایک زبان میں بات ہو گی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے لئے بریک تھرو کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ افغان مسئلہ کا جلد از جلد حل چاہتے ہیں تاکہ اگلے سال جب وہ صدارتی الیکشن کے اکھاڑے میں اتریں تو افغانستان میں 18سالہ جنگ سے نجات ہو چکی ہو جبکہ پاکستان کو بھی امریکا سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں الیکشن میں کامیابی کے اگلے ہی دن عمران خان نے اعلان کیا تھا ہم امریکا سے ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتے ہیں اطلاعات یہی ہیں کہ ان کے دورے کا پیغام بھی یہی ہوگا۔