لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمہ کیلئے احساس پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت غریب عوام کو روزگار کی فراہمی اور انہیں کاروبار کیلئے قرضوں کی فراہمی کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ حکومت کے عزائم اور اقدامات اپنی جگہ لیکن بنیادی طور پر پہلے یہ دیکھنا ہوگا آخر پاکستان میں ہر دور میں غربت کے خاتمہ کے دعوے ہوتے رہے لیکن غربت بڑھتی گئی اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ قائداعظمؒ نے پاکستان ایک تجربہ گاہ کے طور پر بنایا جس میں ہر شخص کو ترقی کے مواقع اور انصاف کی فراہمی یقینی بناتے ہوئے اسے فلاحی مملکت بنانا تھا، ایسا کیوں نہ ہوا اس میں اصل رکاوٹ کیا ہے ؟ دنیا کو گندم اور چاول فروخت کرنے والے پاکستان میں بچے غربت کا شکار کیوں ہیں ؟ یہ ایک دکھ بھری داستان ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے ہر جماعت اور اتحاد نے اقتدار میں آنے کیلئے مسائل زدہ اور غریب عوام کے دکھ درد کو سیاسی طاقت کیلئے استعمال کیا لیکن مسند اقتدار پر پہنچنے کے بعد وہ یہ سارے نعرے اور وعدے بھول گئے اور خود کو جوابدہ بنانے کے بجائے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کیلئے سرگرم رہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا اور حالات آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں ایک جانب ہم خود کو نیوکلیئر پاور قرار دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو دوسری جانب ہمارے ہاں خطہ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حکمرانوں اور اشرافیہ کو اس کا ذرا برابر احساس نہیں۔
حال ہی میں غیر ملکی میڈیا میں پاکستان کے حوالے سے شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کروڑ سے اوپر آ گئی جو خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور آبادی کے حوالے سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک میں 45 فیصد بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے تھر میں ہزاروں بچوں کی اموات ایسا مسئلہ ہے جس نے ہمارے حکمرانوں اور حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر رکھا ہے۔ ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی آئی ہے اس کی ترجیح غریب عوام کی فلاح ہے۔ لیکن ہر نیا دن پاکستان کا اقتصادی بحران بڑھا رہا ہے۔
موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے پر مہنگائی زدہ عوام کو ریلیف کی توقع تھی مگر افسوس مہنگائی کے طوفان نے عوام کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ معاشی دباؤ نے ان کیلئے دو وقت کا کھانا نا ممکن بنا دیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے موجودہ حکومت ہو یا ماضی کی حکومتیں کسی کوغربت ، افلاس اور فاقوں کے حقیقی اسباب کا شعور نہیں۔ ایک طرف 45 فیصد آبادی خطہ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے تو دوسری طرف عیاشیوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔ تمام اہم شہروں کے فائیو سٹار، فور سٹار اور تھری سٹار ہوٹلوں میں رات کو جگہ نہیں ملتی۔ ایوب خان، ذوالفقار بھٹو اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں کے دور میں مہنگائی بڑے ایشوز کے طور پر سامنے آئی اور ان حکومتوں کو ہلا گئی وہ اقتدار سے محروم ہو گئے لیکن اس کے باوجود عوام کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کے دور میں پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ہر شے اسکی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ بنیادی سوال بھی یہی ہے عمران خان کی حکومت کے پاس عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت کیلئے کوئی منصوبہ ہے ؟ یہ کہنا پاکستان میں ٹیکس کلچر نہیں ہے، بہت بڑا دھوکہ ہے دراصل ٹیکس جمع کرنے والی مشینری امیر سے امیر تر اور ملک غریب سے غریب تر ہوتا گیا۔ بد قسمتی بھی یہی ہے پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس غربت کے خاتمہ کا کوئی حقیقی منصوبہ نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے احساس پروگرام کو اس حد تک تو سراہا جا سکتا ہے انہیں اس امر کا احساس ہے ملک میں غربت ہے اور غربت کا سدباب ہونا چاہئے۔ مگر غربت کا سدباب درجنوں یا سینکڑوں افراد کی مالی مدد سے نہیں ہو سکتا اور یہ نہ ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ممکن ہے۔
جب تک پاکستان میں صنعتی اور سرمایہ کاری کا عمل تیز نہیں ہوگا لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے۔ مؤثر ٹیکس سسٹم وجود میں آئے بغیر غربت ختم ہو گی نہ غریب کیلئے روٹی، روزگار کا بندوبست ہو سکے گا۔ غربت کے خاتمہ کیلئے نعرے، دعوے نہیں، اقدامات کی ضرورت ہے۔ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر محسوس کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے غریبوں کے اندر پکنے والا لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے، حکومت فکر کرے۔