لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی نامزدگی کے باوجود چیئرمین شپ حکومت کو ہضم نہیں ہو پا رہی۔ اسے ایشو بنا کر رکھنا وفاقی وزیر شیخ رشید نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور اب خود وزیراعظم عمران خان نے بھی ننکانہ صاحب کے جلسہ میں شہباز شریف کا نام لئے بغیر یہ کہہ دیا کہ جمہوری تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ کوئی جیل سے آ کر چیئرمین پی اے سی بنا ہو اور نیب کو طلب کر لے جبکہ دوسری جانب خود اپوزیشن میں شامل دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی اس اصولی نامزدگی پر واضح سٹینڈ لے رکھا ہے اور وہ شہباز شریف کی تبدیلی پر کسی قیمت پر تیار نہیں۔
لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ پہلے پی اے سی کی چیئرمین شپ پر شہباز شریف کی نامزدگی پر حکومت نے اتفاق کیوں کیا ؟ بعد ازاں اس پر معترض کیونکر ہوئی؟ شہباز شریف کا کونسا عمل ہے جو حکومت کو ہضم نہیں ہو پا رہا اور کونسا ایسا ذہن حکومت کے اندر کار فرما ہے جو حکومت کو الجھانے اور نت نئے ایشوز میں پھنسانے کا باعث بن رہا ہے۔ جہاں تک شہباز شریف کی بطور چیئر مین پی اے سی نامزدگی کے عمل کا سوال ہے تو یقیناً ماضی میں اس منصب پر اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی کی روایت موجود تھی، لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور خود وزیراعظم عمران خان سمیت بعض وفاقی وزرا اسے اپنے لئے عزت کا مسئلہ بنا کر کسی قیمت پر انہیں بنانے کو تیار نہ تھے لیکن کہیں نہ کہیں سے کوئی سگنل آیا کہ راتوں رات سارے ڈھیر ہو گئے اور شہباز شریف پی اے سی کے چیئرمین بنے اور چیئرمین پی اے سی کے طور پر ان کا کردار نمایاں ہونے لگا تو حکومت کے اندر موجود لابی اسے ہضم نہ کر سکی۔
شیخ رشید نے شہباز شریف کی نامزدگی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا، لیکن یہ اعلان محض اعلان تک ہی رہا۔ بعد ازاں کابینہ کے اجلاس میں شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ سامنے آ گیا جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ شہباز شریف کوئی ایسا کام ضرور ڈال رہے ہیں جو حکومت کو ہضم نہیں ہو پا رہا۔ شہباز شریف پر حکومتی اعتراض کا پہلا جواب تو پیپلز پارٹی کی جانب سے آیا اور خورشید شاہ نے کہا کہ نیب کے مقدمہ کی بنا پر اگر شہباز شریف بطور چیئرمین پی اے سی قبول نہیں تو پھر اس کا آغاز وزیراعظم عمران خان سے کیا جائے جو سرکاری ہیلی کاپٹر کے غیر قانونی استعمال کے مقدمہ میں نیب کو مطلوب ہیں۔ شیخ رشید کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بعض ایسے کوارٹرز پر نظر اور رابطے ہیں جہاں آج بھی شہباز شریف کیلئے سافٹ کارنر ہے جو انہیں جینے نہیں دے رہا۔ خود پی اے سی کے حوالے سے بھی ان کی چال کارگر نہ ہوئی اور وزیراعظم کی جانب سے منظوری لینے کے باوجود وہ رکن نہ بن سکے کیونکہ دنیا کے کسی ملک میں کسی وزیر کے مجلس قائمہ کے رکن بننے کی مثال موجود نہیں۔
شیخ رشید کا مسئلہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاسی محاذ پر کوئی بڑا ایشو کھڑا کر کے اپنی اہمیت قائم رکھنا چاہتے ہیں لیکن انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ ان کے بیانات سے خود حکومت کیلئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ شہباز شریف پر وزیراعظم سمیت وزرا کی جانب سے دباؤ ظاہر کر رہا ہے کہ شہباز شریف انہیں کھٹک رہے ہیں۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ کیا شہباز شریف حکومتی دباؤ کے نتیجہ میں یہ ذمہ داری چھوڑ دیں گے تو لگتا ہے کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ پی اے سی کی چیئرمین شپ کیلئے کلیئرنس جہاں سے ہوتی ہے حکومت کو بخوبی پتہ ہے اور شہباز شریف پیچھے ہٹنے والے نہیں اور لگتا یوں ہے کہ شہباز شریف کی چیئرمین شپ کے خلاف مہم اس طرح دم توڑ جائے گی جس طرح چند ہفتے قبل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے استعفے کیلئے حکومتی وزرا کو ابال آیا تھا۔ ہر سطح پر زور لگانے کے بعد بلآخر پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی لیکن ایک سوال حکومتی و سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ حکومتیں تو جلتی پر تیل ڈالنے کے بجائے پانی ڈالتی ہیں، بحرانوں کا خاتمہ کرتی ہیں، مسائل کا سیاسی حل پیش کرتی ہیں اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنے کا ایجنڈا دے کر عوام کے سامنے سرخرو ہوتی ہے۔ آخر حکومت کا مسئلہ کیا ہے کہ وہ از خود بحران اور طوفان لا رہی ہے اور حکومتی وزرا حکومتی کارکردگی پر توجہ دینے کے بجائے اپوزیشن لیڈر پر نظر رکھے انہیں کوستے نظر آ رہے ہیں آخر مسئلہ کیا ہے اس کا جواب کوئی نہیں دے پا رہا۔