آلودگی: کیا لاہور میں ہیلتھ ایمرجنسی ضروری؟

Last Updated On 08 January,2019 09:28 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان کا دوسرا بڑا شہر سموگ کا شکار ہے، جس کی وجوہات میں اینٹوں کے بھٹے، سٹیل کے کارخانے، چاول کی کٹائی کے بعد مڈھ جلانا، گاڑیوں کی بڑھتی تعداد اور نئی سڑکوں و عمارتوں کی تعمیر کیلئے درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی شامل ہیں۔

مال روڈ پر واقع ماحولیات کے وکیل رافع عالم کے گھر میں 24 گھنٹے تین ہوا صاف کرنیوالے آلات چلتے ہیں، وہ ہمیشہ کھڑکیاں اور دروازوں کی دراڑیں تولیے سے بند رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سردیوں کے آغاز پر جب شہر میں سموگ پھیلی، انہوں نے اپنی بیٹی کو سکول نہ بھیجا، وہ اس کے پھیپھڑوں کے مستقل طور پر متاثر ہونے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ گلوبل ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق رواں موسم سرما کے دوران شہر میں فضائی آلودگی نے پانچ مرتبہ قانونی حد سے تجاوز کیا، اس دوران ایک کروڑ سے زائد آبادی کی بڑی تعداد نے سر درد، آنکھوں میں جلن اور گلے میں خراش کی شکایت کی۔

رافع عالم کے مطابق جن دنوں فضا میں دھول اورآلودگی بڑھ جائے جس سے دمہ، پھیپھڑوں کے مسائل اور دل کے مسائل پیدا ہو سکتے ہوں، حکومت کو ایسے موقع پر پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کر نا چاہیے۔ انہوں نے کہا لاہور میں فضائی آلودگی سارا سال رہتی ہے، مگر سردیوں میں بدلتے موسم کے باعث جب گرم ہوا کی تہہ فضا میں اٹھ نہیں سکتی، تو گندگی اس میں پھنس جاتی ہے، جو صاف دکھائی دیتی ہے۔ لاہور کبھی باغوں کا شہر مشہور تھا، آج گاڑیوں کی وجہ سے بند رہتا ہے، ایئر کوالٹی انڈیکس کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کے مشیر ملک امین اسلم نے کابینہ کو بتایا کہ عمران خان حکومت نے لاہور ہوا کی کوالٹی کی مانیٹرنگ دوبارہ شروع کرائی ہے، جو گزشتہ دو سال سے بند تھی، دو سال کے دوران ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سٹیشن فنڈز اور صلاحیت کی کمی کے باعث صوبے میں کام نہیں کر رہے تھے۔ وزیر اعظم لاہور میں پلے بڑھے ہیں، شہر میں سموگ کے مسئلے سے نمٹنا اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ نومبر میں لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو سموگ کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کا حکم دیا، جو کہ 2017 میں سموگ کی وجوہات اور اس میں کمی کے طریقوں کی نشاندہی کیلئے عدالت کے حکم پر تشکیل دیا گیا۔ اس کی سفارشات میں فیکٹریوں سے دھوئیں کی اخراج میں کمی، فیول ایفیشنٹ ٹیکنالوجی استعمال نہ کرنیوالے اینٹوں کے بھٹوں کی بندش کے علاوہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو جرمانے اور کسانوں کو سردیوں میں مڈھ جلانے سے روکنا شامل ہے۔ کمیشن نے شہری علاقوں میں درخت لگانے اور ماحولیات سے متعلق سکولوں میں آگاہی پھیلانے کی کوششوں کا بھی حکم دیا۔

ملک اسلم نے بتایا کہ اس وقت ایک ٹیم لاہور میں ایئر کوالٹی مانیٹرز کی ریڈنگ کرتی ہے، جس کا ڈیٹا شہر کے ایئر کوالٹی انڈیکس کو فیڈ کیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس کو روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے، عوام کی آگاہی کیلئے انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا جاتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان نے بھٹہ مالکان سے ملاقاتیں کیں اور موسم سرما کے دوران لاہور سمیت 12 اضلاع میں بھٹے بند کرانے میں کامیاب رہے۔ حکومت بھٹہ مالکان پر ماحول دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے زور دے رہی ہے، جس کیلئے انہیں قرضوں کی پیشکش کی گئی ہے، جبکہ پرانے ٹائر جلانے سمیت گندی ٹیکنالوجی استعمال والوں کو جرمانے بھی کئے جا رہے ہیں۔ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ نے فصلوں کے مڈھ چلانے والے کسانوں کو جرمانے کئے ہیں، متبادل کے طور پر صفر کھیتی کاشتکاری کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اس تبدیلی سے کسانوں پر مالی بوجھ بڑھے گا۔

انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال سموگ کم رہا، جس کی وجہ اینٹی سموگ اقدامات تھے۔ تاہم ملک اسلم کہتے ہیں کہ لاہور اور گردونواح میں نصب مانیٹر خطرناک سطح کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ مسئلہ صرف اینٹوں کے بھٹوں اور کسانوں کا نہیں، پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ آلودہ فیول استعمال کرتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے ملک کے توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر تبدیلی لانا ہو گی۔ مسئلے کو سمجھنے اور موثر اقدامات کیلئے ملک بھر کے شہروں میں ایئر کوالٹی مانیٹر نگ سسٹم نصب کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا سموگ میں کمی کے کچھ دیگر فائدے بھی ہیں۔ فضائی آلودگی کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسز میں کمی کرکے ہم موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے بھی نمٹ رہے ہیں۔ دونوں مسئلے آپس میں جڑے ہیں۔ این جی او پاکستان ایئر کوالٹی پروگرام جوکہ فضائی آلودگی اور اس کے صحت پر اثرات سے متعلق ڈیٹا شائع کرتی ہے کے بانی عابد عمر اتفاق کرتے ہیں کہ وسیع تر تبدیلی کی پالیسی ضروری ہے۔ ہمیں فضائی آلودگی کے ماخذ کم کرنے ہیں، بھلے وہ صنعت ہو، زراعت ، شہری ویسٹ یا ٹرانسپورٹ۔ اس کیلئے وقت ، پیسے اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہو گی۔