حکومت بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانے کیلئے موثر حکمت عملی بنائے

Last Updated On 17 December,2018 09:36 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف موثر آواز اٹھائی جس کو قومی جذبات اور احساسات کا آئینہ دار قرار دیا جا سکتا ہے، اب سفارتخانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی برادری سے بھارتی ظلم و ستم پر پاکستانی مؤقف کس انداز میں پہنچاتے ہیں؟۔

دوسری جانب کشمیریوں نے بھارتی چالوں کو الٹ کر رکھ دیا جو اسرائیلی طرز پر مقبوضہ وادی میں آبادی کے توازن کو بگاڑنے کے لئے انتہا پسند ہندوؤں کی بستیاں بسانے کے خواب دیکھ رہے تھے، ان نام نہاد جدید بستیوں میں رہنے کیلئے کوئی تیار نہیں، پاکستان میں بھارتی ظلم و ستم اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل کے تعین کی ذمہ داری حکومت کی ہے، اب بات پارلیمنٹ کے اندر قرارداد وں اور تقاریر تک محدود نہیں رہنی چاہیے کیونکہ بھارت کشمیریوں کی آواز اور حق خود ارادیت کے مطالبہ پر اثر انداز ہونے کیلئے طاقت کے بے رحمانہ استعمال پر اتر آیا اور کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے، طرف تماشا یہ ہے کہ اس ظلم و درندگی کے کھیل پر عالمی ضمیر خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔

مسلسل کرفیو کی صورتحال نے مقبوضہ کشمیر میں کاروبار زندگی معطل کر کے رکھ دیا، مقبوضہ کشمیر میں برپا قیامت اور بغاوت نے بھارتی کٹھ پتلی حکمرانوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر کے رکھ دیا، وادی کا چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے، کشمیریوں کے عوامی اتحاد نے بھارتی سامراج کو شکست دے دی، اور اس کا سہرا صرف کشمیری عوام اور نوجوانوں کو جاتا ہے جنہوں نے شہادتوں کی تاریخ رقم کرنے کے باوجود پسپائی اختیار نہیں کی اور بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث دنیا کے سامنے بھارتی رسوائی کا سامان رکھ دیا، یہی وجہ ہے کہ اب اقوام عالم بھارت کے مکر و ہ پراپیگنڈے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور سمجھتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حق خود ارادیت کیلئے آواز صرف کشمیریوں کی ہے اور وہ بھارتی تسلط برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں، کشمیریوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کی جدوجہد کا دہشت گردی کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ یہ خالصتاً عوامی تحریک ہے جس سے مقبوضہ کشمیر کی پوری آبادی مرد و زن اور بچے بوڑھے والہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی حکمران اپنی ضد اور ہٹ دھرمی ترک کر کے کشمیر میں نوشتہ دیوار پڑھتے اور کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرتے کیونکہ بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے کا دعویدار ہے اور اس کا آئین لوگوں کی رائے کے احترام کو لازم قرار دیتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں اس کی سامراجی پالیسی نے جموں و کشمیر کی صورتحال کو دھماکہ خیز بنا دیا ہے اور حالات روز بروز بد سے بدتر ہو رہے ہیں، کشمیریوں کی آزادی میں واحد رکاوٹ بھارت کے بندوق بردار فوجی ہیں اور ان کی حالت بھی یہ ہے کہ وہ اپنے محفوظ بنکروں میں خود کشیاں کر رہے ہیں، بھارتی ریاست کشمیریوں کے عزم و ہمت کے سامنے لرز رہی ہے، اگرچہ بھارتی افواج کے پاس لاکھوں بندوقیں اور تباہی کا بے بہا سامان ہے مگر وہ کشمیریوں کے طوفان کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، کیونکہ یہ حقیقت دنیا کے سامنے آ چکی ہے کہ بندوقوں سے سچ کو قتل نہیں کیا جا سکتا، اس لئے مقبوضہ وادی میں نہ تو طاقت کارگر ہو رہی ہے نہ ہی بھارتی حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے۔

اس صورتحال میں بنیادی بات پاکستان کی حکمت عملی ہے جو مسئلہ کا بنیادی فریق ہے اور مجبور، بے گناہ اور نہتے کشمیری پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں، بد قسمتی سے پاکستان کی حکومتیں کشمیر کو بنیادی مسئلہ تو قرار دیتی ہیں مگر کشمیر کاز سے زیادہ بھارت سے مذاکرات کی خواہاں ہیں، بھارت ہے کہ مذاکرات پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا تو دوسری جانب کشمیریوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے، وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے بھی برسرِاقتدار آنے کے بعد مذاکرات کا ڈول ڈالنے کی کوشش کی، کرتارپور سرحد کھولنے کے عمل کے ذریعے اپنا مثبت رویہ دنیا کے سامنے رکھا مگر بھارت نے کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ تیز کر دیا، بھارتی افواج کشمیریوں پر ایسی ٹوٹتی نظر آتی ہیں جیسے یہ دشمن ہوں، نہتے مظلوم اور بے گناہ کشمیریوں کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے کیونکہ اس کے علاقائی صورتحال میں بھارت کے ساتھ مفادات ہیں ، اس لئے اب پاکستانی حکومت نے کشمیر کاز پر کروٹ لی ہے تو یہ نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔

بھارت کا مکروہ، بھیانک اور شرمناک چہرہ دنیا کو دکھانے کیلئے موثر حکمت عملی تیار کر کے اس پر عملدرآمد بھی ہونا چاہیے، وزیر خارجہ شاہ محمود کا بروقت رد عمل اور تجاویز پر قومی اتحاد و اعتماد ضرورت ہے، سفارتخانوں کو ہدایات واضح کرنا چاہیے کہ اپنے اپنے ممالک کے حکمرانوں اور ذمہ داروں کو بتائیں کہ یہ صرف حق خود ارادیت کا ہی نہیں انسانیت کی بقا کا مسئلہ بھی ہے اور نام نہاد بھارتی جمہوریہ کشمیریوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے ان کی آواز کو دبا رہی ہے، اس سارے عمل میں اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے، پاکستان کے اندر کشمیر کاز پر اتحاد، یکجہتی کی فضا مسئلہ کشمیر کے حل اور ریاستی دہشت گردی کے سدِ باب میں معاون بن سکتی ہے، مسئلہ کشمیر کا حل بھی پاکستان کے اندر سیاسی، اقتصادی اور معاشی استحکام سے مشروط ہے، ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان ہی کشمیریوں کی آزادی میں معاون بن سکتا ہے۔