لاہور: (تجزیہ: خاور گھمن ) نئی حکومت کی طرف سے اعلیٰ سرکاری افسر وں کی تقرریوں سے واضح نظر آتا ہے کہ اہم عہدوں پر وہی پرانے چہرے قبضہ جمائے ہیں۔ حیران کن طور یہ افسران ن لیگی حکومت اور قیادت کے با اعتماد ترین افسران میں شامل ہوتے تھے۔ ایف بی آر میں اصلاحات اور ٹیکس وصولی عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا اور اس کی تکمیل کے لیے جہانزیب خان کو چیئرمین فیڈل بورڈ آف ریونیو تعینات کر دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت میں سیکرٹری پلاننگ و ڈویلپمنٹ اور بطور ایڈیشنل چیف سیکرٹری انرجی شہباز شریف کے ساتھ رہے، متنازعہ قائد اعظم سولر پارک منصوبے میں بھی شامل رہے، یوں ان کا شمار شہباز شریف کے من پسند افسران میں ہوتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہانزیب خان پیشے کے اعتبار سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے اور پھر سول سروس کا امتحان پاس کر کے ڈی ایم جی افسر بن گئے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ایک میڈیکل ڈاکٹر ملک کے تباہ حال ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو بہتر کر سکے گا جس کے ذریعے عمران خان ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان آٹھ ہزار ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کرنے کا خواب دیکھ رہے لیکن کیا جہانزیب خان اس ہدف کو پورا کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے ؟ پیپلز پارٹی کے زمانے میں انہی صاحب کو آصف علی زرداری نے فرانس میں پاکستان کا سفیر لگانے کا فیصلہ کیا، وزارت خارجہ کے افسروں کی جانب سے احتجاج کے بعد ان کی تعیناتی روک دی گئی۔ دوسری اہم تقرری ڈاکٹر سلمان کی بطور ڈائریکٹرجنرل آئی بی کے طور پر عمل میں لائی گئی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جب ڈاکٹر سلمان کو اسی عہدے پر تعینات کیا تھا تو تحریک انصاف نے انہیں نون لیگ کا آلہ کار قرار دے دیا۔ پی ٹی آئی کے مطالبے پر نگران حکومت نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا لیکن اب برسر اقتدار آنے کے بعد خود تحریک انصا ف نے واپس اسی عہدے پر تعینات کر دیا ہے۔ ایک اور ڈی ایم جی افسر اعجاز منیر کو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن لگا دیاگیا ہے۔ اعجاز منیر ا س اہم ترین کرسی پر بیٹھ کر پورے ملک کی افسر شاہی کو کنٹرول کریں گے۔ پنجاب حکومت میں رہنے کے بعد اعجاز منیر کو فواد حسن فواد وزیر ا عظم آفس لے آئے اور پھر ان کا شمار فواد حسن فواد کے دست راست کے طور پر ہوتا تھا۔
واضح رہے کہ سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد ان دونوں نیب کی حراست میں ہیں اور ان پر کرپشن کے متعدد الزامات ہیں۔ انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق یہ تمام تعیناتیاں وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن شہزاد ا رباب اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی مشاورت سے ہوئی ہیں اور ان دونوں افراد کا تعلق ڈی ایم جی سے ہے، یہ طے ہے کہ بیورو کریسی میں ڈی ایم جی کے افسر ایک دوسرے کا خیال خوب رکھتے ہیں۔ صرف یہی نہیں سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری داخلہ بھی اسی گروپ سے منسلک ہیں جسے اب پاکستان ایڈ منسٹریٹیو سروس کا نام دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں تحریک انصاف نون لیگ کی حکومت کو ڈی ایم جی حکومت ہونے کا طعنہ دیتی رہی ہے اور درحقیقت شریف برادران نے ہمیشہ حکومت بھی انہی افسران کے سر پر کی۔ احد چیمہ اور فواد حسن فواد بھی اسی گروپ سے ہیں۔ اس صورت حال میں ملین ڈالرسوال یہ ہے اگر تحریک انصاف کے مطابق ان افسران پرتکیہ کرنے والی نون لیگ کی حکومت ناکام ترین رہی ہے تو عمران خان کیونکر کامیاب ہو سکیں گے ؟ اب ان افسران کے ہاتھ آلہ دین کا کون سا چراغ لگ گیا جس کے بل بوتے پر وہ تحریک انصاف حکومت کے سو دن کے پلان کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں گے؟۔
اس حوالے سے جب وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی سے استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کون سا افسر کس پارٹی کا منظور نظر رہا، وزیر اعظم عمران خان کو اس سے فرق نہیں پڑتا، اگر وہ کام نہیں کرے گا تو اس کا حتساب ہوگا اور وزیر اعظم نے سب افسران کو یہ باور کروا دیا ہے۔ یہی سوال جب عمران خان کے ایک اور قریبی ساتھی سے کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ ایک، ایک تعیناتی پر وزیر اعظم کی نظر ہے اور اب یہ سارا بوجھ ان پر ہے جنھوں نے یہ تعیناتیاں کروائی ہیں۔ وزیر اعظم ہر دوسرے ہفتے ان سے جواب مانگیں گے جو انہیں دینا پڑے گا۔ ایسے میں اگر عمران خان ان افسران کے سہارے تبدیلی لانے میں کامیاب ہو گئے جو ہم سب کی خواہش ہے تو واقعی یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا اور کپتان معجزہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔