لاہور: (کنور دلشاد) اس کی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے اپوزیشن لیڈر کو دیگر سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل نہیں، لہذا دیگر اپوزیشن جماعتیں خورشید شاہ کے پیش کردہ نام سے اتفاق نہیں کرینگی۔
ادھر قائد ایوان یعنی وزیر اعظم عباسی نواز شریف کے زیر اثر ہیں، ان کی بھی آزادانہ رائے نہیں ، وہ نواز شریف سے مشاورت کرینگے جس کے باعث اپوزیشن اور باقی سیاسی جماعتیں ان پر اعتماد نہیں کرینگی اور یہ معاملہ قانون کے مطابق پارلیمانی کمیٹی میں جائیگا، چونکہ پارلیمانی کمیٹی میں مساوی ارکان ہوتے ہیں، اس لئے یہاں بھی اتفاق رائے پیدا ہونا مشکل نظر آتا ہے، لہذا معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جائیگا جو کہ نگران حکومت کی تشکیل کا آخری آئینی راستہ ہے، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمشنر خود نگران وزیراعظم کا فیصلہ کرینگے، ان کا فیصلہ حتمی ہو گا جو کہ تمام سیاسی جماعتوں کو قبول کرنا پڑے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ رسمی یا غیر رسمی طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کو اعتماد میں لے کیونکہ انہوں نے ہی شفاف انتخابات کے انعقاد کی ضمانت دی ہے۔ آئین میں اس حوالے سے چیف جسٹس کا اگرچہ کوئی کردار نہیں، تاہم مشاورت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ موجودہ حکومت کی جانب سے بجٹ کا اعلان پری پول دھاندلی کے زمرے میں آتا ہے، مسلم لیگ ن جس طرح سے انتشار کا شکار ہے ، اپنے ارکان اسے چھوڑ رہے ہیں، اگر حکومت بجٹ پیش بھی کرتی ہے تو موجودہ پارلیمنٹ میں اختلافات کے باعث یہ منظور نہیں ہو گا۔
اگر ایسا ہوا توصدر پاکستان آرٹیکل 266، 267 کے تحت حکومت تحلیل کر دینگے، اسمبلی تحلیل کرنے کا ان کے پاس اختیار نہیں۔ بجٹ منظور نہ ہونے کی صورت میں صدر آئینی طور پر حکومت تحلیل کرنے کے مجاز ہیں۔ یوں ایک سنگین بحران پیدا ہو جائیگا، اس سے بچنے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ ضد کا مظاہرہ نہ کرے اور بجٹ پیش نہ کر ے کیونکہ بجٹ منظور نہ ہونے کی صورت میں شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ نگران حکومت جون میں ضمنی بجٹ پیش کر سکتی ہے۔