پاکستان میں ابھی تک پولیو کیوں ختم نہ ہو سکا؟

Last Updated On 19 January,2020 10:46 pm

لاہور: (دنیا میگزین) پڑوسی ممالک جیسا کہ انڈیا اور بنگلہ دیش نے پولیو سے نجات حاصل کر لی مگر افسوس کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی پالیسیاں آج تک کامیاب نہ ہوسکیں۔

پولیو جسے پولیو مینٹس بھی کہا جاتا ہے ایک لاعلاج مرض ہے، جس کی وجہ ایک خطرناک وائرس ہے جو نہایت کم وقت میں انسانی اعصابی نظام کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

وائرس فالج ہونے کے خدشات 100 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ وائرس منتقلی کے ایک ہفتے بعد پٹھوں میں درد شروع ہوتا ہے اور چند ہی دنوں میں جسم کا حصہ مفلوج ہوجاتا ہے۔

یہ مرض بیسویں صدی کے اوائل میں صنعتی ممالک میں ایک خوفناک بیماری کے روپ میں سامنے آیا جو ہر سال ہزاروں بچوں کو معذورکررہا ہے۔ 1950ء اور 60ء کی دہائی میں موثر ویکسین متعارف کروانے کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں پولیو پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا، مگر کئی ممالک میں پولیو آج تک ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ 70ء کی دہائی میں دنیا بھر میں حفاظتی ٹیکوں کے ایک پروگرام کو متعارف کرایا گیا جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں اس مرض پر قابو پانے میں مدد لینا تھا۔

1988ء میں ’’مشترکہ عالمی اقدام برائے انسداد پولیو‘‘ کے اقدامات نے مرض میں تقریباً 90 فیصد کمی واقع کی، اس پروگرام کے بعد جہاں پانچ براعظموں کے125ممالک میں پولیووائرس عام تھا، وہ اب چند ممالک میںباقی رہ گیا ہے۔

پاکستان میں پولیو پر قابو پانے کے لئے ڈبلیو ایچ او اور بڑی این جی اوز کی شراکت اور حکومت کے تعاون سے ’’نیشنل ایمرجنسی پلان ‘‘مرتب دیا گیا۔ پروگرام کی ترجیحات میں ویکسی نیشن کی فراہمی کو بہتر بنانا، پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ پولیو کی روک تھام کے سلسلے میں رابطہ رکھنا، بیماری کی خاص مانیٹرنگ کرنا،اعلیٰ کارکردگی کو یقینی بنانااور لوگوں میں اعتماد کی فضا قائم کرنا شامل ہیں۔

مواصلات اور سماجی سرگرمیوں کو بڑھانا، طریقہ کار میں جدت لانا اور پروگروم میں خلل پیدا کرنے والی خرابیوں کو دور کرنا بھی اسی پروگرام کی ترجیحات میں شامل ہیں۔

پاکستان میں پولیو کی صورتحال اور عالمی موازنہ

پولیو کے خاتمے سے متعلق دوسرے ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، امریکہ اور برطانیہ کی مثال مختلف فورمز پر دی جاتی ہے ، پڑوسی ممالک جیسا کہ انڈیا اور بنگلہ دیش نے پولیو سے نجات حاصل کر لی مگر افسوس کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی پالیسیاں آج تک کامیاب نہ ہوسکیں۔ 2019 میں افغانستان میں بھی صرف 16 پولیو کے کیس دیکھے گئے مگر پاکستان میں مرض ایک بار پھر بڑھ رہا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش جو کم و بیش ثقافتی طور پر کسی حد تک پاکستان سے ملتے جلتے ہیں، انھوں نے اس مرض پر قابو کیسے پالیا؟ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قائدین اور سیاستدان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا،مگرپاکستان میں حکومت اوراعلیٰ حکام کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے یہ مرض بڑھتا جا رہا ہے ، ایک اور بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جن ممالک نے پولیو پر خاص حد تک قابو پا لیا ، انھوں نے اعداد و شمار پر پوری تحقیقات کیں۔دور کی بات نہیں ، 2009 میں دنیا کے 60 فیصد پولیو کیسز صرف بھارت میں رونما ہوئے ،حکومتی کاوشوں اور حکمت عملی کی بدولت پانچ سال کے عرصے میں بھارت پولیو فری ہوگیا، ہندوستان میں یہ کامیابی وہاں کے ماہر ایڈوائزری گروپ کی کوششوںکا نتیجہ ہے،جن کا مشن بس یہ تھا کہ بھارت کا ایک بھی بچہ پولیو کے قطروں سے محروم نہ رہ جائے۔ ہندوستان کی ہر ریاست میں پولیو کے خطرے کے پیش نظر ایک تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ہنگامی منصوبہ بندی کی گئی۔ایسی ہی مثال بنگلہ دیش کی بھی دی جا سکتی ہے۔ 2006 تک یہ ملک بھی پولیو سے پاک ہوگیا۔وہاں تمام بچے اس مہلک مرض سے بچانے کے لئے مقامی اعداد و شمارکی روشنی میں نچلی سطح تک کے تمام نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مائیکرو منصوبہ بندی کی گئی ۔

پاکستان پولیو مہم میں آج تک 100 فیصد کامیاب کیوں نہ ہو سکا ، ناکامی کی وجوہات کیا ہیں ؟اس کی چار مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔ مربوط نظریہ اور متحد حکمت عملی میں ناکامی، قومی، صوبائی ،ضلعی اور یو سی سطح پر انتظامات میں ناکامی،موثراوراعلیٰ معیار پر توجہ دینے میں ناکامی اس مہم کی کامیابی کو روک لیتی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں لوگوں کی سوچ اور شدت پسندی بھی اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ پولیو پر قابو نہ پانے کی ایک بڑی وجہ مضبوط ومربوط حکمت عملی کی عدم دستیابی ہے ۔ حکومت کے پاس پولیو ٹیموں کی کمی ہے ۔گھر گھر جاکر پولیو سے بچائے کے قطرے پلانے والے سٹاف کی محض ایک یا دو دن کی ٹریننگ ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ پسماندہ علاقوں میں بچوں کے والدین کو مطمئن نہیں کر پاتے اور والدین کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔

فتنہ بازی

دہشت گردی سے پاکستان اکیلا نبردآزما ہے ۔لاعلمی کو پولیو کے خاتمہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔

منصوبہ بندی کا فقدان

پولیو خاتمہ پروگرام میں تنظیمی خامیاں ہیں جو کہ نتائج کے حصول میں رکاوٹ ہیں پہلے نمبر پر ویکسینیٹرزکی حفاظت کے لئے حکومت کا دائرہ کار محدود ہے وہ اساتذہ ،لیڈی ہیلتھ ورکرز اورمہم سے منسلک دیگر افراد کو مہم کے لیے بھرتی کرتے ہیں ۔ایک قابل ویکسینیٹر ایک سال کی تربیت حاصل کرتا ہے جبکہ عارضی افراد کو ایک یا دودِن کی بنیادی باتوں پر مشتمل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ ورکرز بچوں کے والدین کو مطمئن نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے والدین اور اس خدماتی پروگرام کے درمیان بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔

نامناسب طریقے سے تربیت یافتہ ویکسینیٹرز کے اس نظام سے بہت کم لگائو ہوتا ہے اور وہ صرف اعدادوشمار کو بڑھانے کے کے لیئے جارحانہ طریقے استعمال کرتے ہیں جس کے پروگرام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔تمام مہم عطیات کی رقم سے چلائی جاتی ہیں لہٰذا پروگرام کو کارگر بنانے کے لئے تمام سرگرمیاں مرکز میں طے کی جاتی ہیں جس میں فیلڈ کے دوران کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کسی ایک سرگرمی کے لیے مختص کی گئی رقم کہیں اور استعمال نہیں کی جا سکتی۔ اسی لئے پولیو خاتمہ پروگرام کی انتظامیہ کے پاس بجٹ کے حوالے سے انتہائی محدوداختیارات ہوتے ہیں۔

وہ معاشرے میں پیش آنے والی مشکلات کو دور کرنے سے سے قاصر رہتے ہیں۔تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ بنوں میں ویکسی نیشن پروگرام والے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں کیونکہ کہ مقامی انتظامیہ غیر رضامند والدین کو راضی کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہے اور اِن کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جاتی ہیں۔ کچھ والدین نے اس صورتحال سے بچنے کے لیے ہیلتھ ورکرز کے ساتھ ساتھ ملی بھگت کرکے مخصوص مارکر حاصل کر لیے ہیں۔ ایک اور حیران کْن مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں موجودہ حکمتِ عملی پررائے سازی کئے بغیر نئی حکمتِ عملی لاگو کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

ہر نئی حکمتِ عملی کے ساتھ حکومتوں کے اپنے مقاصد جْڑے ہوتے ہیں لیکن اصل میںنہ حکومتیں نئی ہیں اور نہ اِن کی حکمتِ عملی۔ لہٰذاناکامی میں کوئی تعجب نہیں۔مثلاً پولیو کے خاتمہ کے لیے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان 2017-2016 کے مطابق ہدف بہت سادہ اور واضح ہے کہ 2016 کے اختتام تک پاکستان میں پولیو کے پھیلائو کو روکنا ہے۔ اس پروگرام کے لیے ایک کثیرالجہتی حکمتِ عملی بھی مرتب کی گئی۔اْس کے بعد اس کے خاطرخواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ ناکامی کی وجوہات جاننے کی بجائے ایک نیا 2019-2018 نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان ترتیب دے دیا گیا جس میں ویکسی نیشن سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھانے اور ابہام کو دور کرنے کے عزائم طے پائے۔بیان کردہ اہداف کو حاصل کرنے کا کوئی طریقہ بیان نہیں کیا گیا کہ نئی ترکیب کیا ہوگی؟ اْسے کس طرح پیش کیا جائیگا؟ اْس میں جانچ پڑتال، احتساب کو کس طرح یقینی بنایا جائیگا اور نتائج کا تعین کس طرح کیا جائے گا؟لائحہ عمل بنانے والوں نے ڈونرز کو یقین دلایا کہ ایک اور حکمتِ عملی زیرِ غور ہے جیسا کہ پولیو کے واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ ابوظہبی میں عالمی رہنماؤں نے Reaching the Last Mile فورم بلایا اور پولیو کے خاتمے کے عزم کی تصدیق کرتے ہوئے 2.6 ارب امریکی ڈالر مختص کئے جوکہ ’’عالمی پولیو خاتمہ پروگرام ‘‘کے پہلے مرحلے کے لئے درکار تھے۔ ابوظہبی ملاقات میں پاکستانی اہلکاروں نے بتایا کہ ہم نے فنڈزعطیہ دینے والی عالمی تنظیموں کو اس بات سے آگاہ کر دیا ہے کہ ہم نئی حکمتِ عملی کے تحت ویکسی نیشن مہم کو بڑھانے کے لئے صوبوں میں اتفاقِ رائے پیدا کر رہے ہیں۔پہلے والی حکمتِ عملی میں کیا نقائص تھے ؟ اور ہمیں یہ کیوں مان لینا چاہیے کہ نئی حکمتِ عملی اس سے بہتر ہوگی؟اس کا جواب نہیں ملا۔ایک اورپریشان کْن سوال یہ ہے کہ پالیسی سازاصل مسائل کو حل کرنے کی بجائے ایسے بڑے بڑے پلان کیوں مرتب کرتے ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگراْن کو مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے تو وہ اْن کا حل تلاش کرنے کی اْمید کیسے لگا سکتے ہیں؟

سیاسی بحران اور اقتدار میں تبدیلی

مشاہدہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر سیاسی حکومتی تبدیلی کے بعد پولیو کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔2013 کے عام انتخابات کے بعد پولیو کیسز کی تعداد 306 تک بڑھ گئی جو بعد میں 2015 میں 54، 2016 ء میں 20 اور2017 میں صرف 8 رہ گئی۔ 2018 ء ایک اور الیکشن کا سال تھا، اور کیسز کی تعداد دوبارہ 12 تک بڑھ گئی۔ 2019 میں مْلک بھرمیں کئی کیسز سامنے آئے جوحکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ اس افراتفری کے عالم میں بیوروکریٹس اور محکمہ صحت کے عہدے داروں کی تقرریاں اور تبادلے کیے جاتے ہیں جس سے پولیو پروگرام متاثر ہوتا ہے۔ ایک ڈپٹی کمشنر جو ایک ضلع کا انچارج اور پولیو پروگرام کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ اپنے کام پر توجہ نہیں دے سکتا سوائے اْن افسران کے جن کا سیاسی اثرورْسوخ ہے ۔ڈپٹی کمشنر سے لے کر سیکرٹری تک تبدیل کر دئیے جاتے ہیں،یہ عمل بد انتظامی کا باعث بنتا ہے ۔اس کی تازہ ترین مثال یہاں پیش کی جاسکتی ہے جب وزیر اعظم عمران خان کے پولیو خاتمہ پروگرام کے سابقہ مرکزی عہدیدار بابر بن عطاء کو ہی ان کی ناتجربہ کاری کے سبب پروگرام سے الگ کیا گیا۔ بابر بن عطاء دوبارہ سرخیوں کی زینت بنے ، ایک برطانوی اشاعتی ادارہ نے اْنہیں پولیو وائرس کی خطرناک شکل P2 strain کے پھیلائوکو روکنے میں ناکامی کا ذمہ دارقرارد یا۔ یہ بھی بتایا گیاکہ انہوں نے پولیو کے خاتمے کے پروگرام میں اپنے قریبی دوستوں کو اعلیٰ مراعات والے عہدوں پر غیر منصفانہ طور پر بھرتی کیا تھا۔ پاکستان پولیو خاتمہ پروگرام کے قومی ہنگامی آپریشن سنٹر کے کوآرڈینیٹرڈاکٹر ملک صافی نے P2 وباء کی تصدیق کی مگر کہا کہ اس کے متعلق مزید کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

پاکستان کے شمالی علاقوں میں بض افراد کا یہ کہنا ہے کہ ویکسین نامردی پیدا کرتی ہے۔یہ تحفظات اْن خدشات کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں جو آبادی پر قابو پانے کی عملی کوششوں کے متعلق پہلے سے ہی لو گوں کے ذہنوں میں موجود تھے۔مقامی افراد نے یہ بھی نقطہ اْٹھایا ہے کہ یکساں توجہ دوسری بیماریوں اور روزمرہ زندگی کو متاثر کرنے والے مسائل جیسے کہ صاف پانی کی فراہمی اورمناسب صفائی ستھرائی کے انتظامات پر کیوں نہیں دی جاتی۔ 2019 میں پاکستان میں مجموعی طور پر 128 پولیو کیسز منظرعام پر آئے۔ یہ وہ سال ہے جب یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پولیو کے خاتمے کے لئے یہ ’آخری دھکا‘ ہے۔ جبکہ افغانستان ، چند افریقی ممالک اور اب فلپائن میں بھی پولیو کے مختلف واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

تجاویز

مقامی لوگوں کی آگاہی کے لئے سوشل میڈیا پرپھیلائی جانے واالی غلط اطلاعات کے خلاف اور ویکسین کے متعلق لوگوں کو اعتماد میں لینے کے لئے مقامی افراد بشمول مذہبی علماء اور مقامی رہنماؤں کے اشتراک سے حکمت عملی بناناضروری ہے۔پاکستان کو اپنے انتظامی معاملات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تقرریوں میں بے ضابطگیوں، عزم و ہمت میں اضافے ، بد عنوانی کے خاتمے اور اسٹریٹجک فریم ورک پر نیک نیتی سے عمل درآمد کئے بغیر ملک کو ان بیماریوں سے نجات دلانا مشکل ہے۔

ویکسین تک رسائی میں اضافہ کرنا

متاثرہ علاقوں میں پانی اور صفائی کے انتظامات کو بہتر بنانا

ماحولیات کی نگرانی کو بہتر بنانا

مذہبی رہنماؤں اور علاقوں کو متحرک کرنا

انتظامی ڈھانچے کو منظم کرنا اور فعال بنانا

ٹیکنالوجی کے ذریعے صحت کے مطلق مؤثر تشہیر اور لوگوں تک پہنچانا

تجاویز،مشکلات اورممکنہ حل

ویکسین کی فراہمی میں اضافہ کرنا

ترسیل کا نظام

پاکستان میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں بجلی کی متواتر بندش کی وجہ سے پولیو ویکسین کی مناسب نقل و حمل اور اس کو ذخیرہ کرنے کے لئے مطلوبہ درجہ حرارت کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پولیو ویکسین کی کولڈ چین کوفعال رکھنے کے لئے ریفریجریشن کی ضرورت ہوتی ہے ، اور غیر متوازن اور نا مناسب درجہ حرارت اس ویکسین کو غیر موثر بنا سکتا ہے۔جب ایسی غیر مؤثر ویکسین جس کی معیاد ختم ہوچکی ہو، دوردراز علاقوں میں بھیجی جائے تو پولیو مہم کی کارکردگی بْری طرح متاثر ہوتی ہے۔اگر کولڈ چین گھروں تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹْوٹ جائے تو پیسہ اور وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ زندگیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ایک بنیادی ترجیح یہ ہے کہ ایسے علاقوں جہاں پولیو وائرس کا خدشہ باقی ہے وہاں تک مؤثر ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

ویکسین کی کولڈ سٹوریج کی نگرانی اور انتظام کو بہتر بنا کر ویکسین کی افادیت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔اِس میں اْن مراکزِ صحت کا اچانک معائنہ کرنا شامل ہے جہاں پر ویکسین ذخیرہ کی جاتی ہے تاکہ نگرانی سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ویکسین کوسنبھالنے کے لیئے کولڈ چین کو برقرار رکھا جارہا ہے۔اگست 2015میں پاکستان نے ٹیکوں کے ذریعے 60 لاکھ بچوں کو ویکسین لگانے کے لئے پروگرام کا آغاز کیا۔پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے کیونکہ اس خطے میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیموں کی قلت ہے جس کے باعث صفائی ستھرائی کی صورتحال انتہائی ناقص ہے۔سرحدی علاقوں میں شرح خواندگی میں کمی، غلط ثقافتی باتیں اور پانی کی فراہمی میں کمی کے باعث ہاتھ دھونے کی عادت میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے حالانکہ کہ قرآن پاک میں بیماریوں سے بچنے کیلئے متعدد بارہاتھ دھونے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی کو بنیادی انسانی حقوق کے طور پر ترجیح دینی چاہیے۔ اِس کے حل کیلئے حکومتی سطح پر ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں تکنیکی، مشاورتی ادارے، پولیو سرٹیفکیشن دینے والی تنظیمیںاور حفاظتی ٹیکوں کے لائحہ عمل طے کرنے والے گروپس شامل ہوں جوکہ منصوبہ میں نااہلی، بد عنوانی کیخلاف عدم برداشت اور احتساب کویقینی بنائیں۔ صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے روٹری انٹرنیشنل ، یونیسف، اقوام متحدہ کی فاؤنڈیشن ، عالمی منصوبہ برائے غربت خاتمہ، ورلڈ بینک، بل اور میلنڈا گیٹس این جی او جیسی تنظیمیں مصیبت زدہ علاقوں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی فراہمی میں مدد کرسکتی ہیں ۔

ماحولیات کی نگرانی کو بہتر بنانا

ماحولیاتی نگرانی سے پاکستان کے تمام صوبوں میں پولیو وائرس کا سْراغ ملا ہے ، اگرچہ اِن ماحولیاتی نمونے میں مثبت کمی واقع ہوئی ہے۔2014 میں 38فیصد سے یہ تناسب 2017 میں 16فیصد پر آگیا ہے۔اگر پولیو وائرس برقرار رہتا ہے تو گندے پانی اور نکاسی آب کی مسلسل ماحولیاتی نگرانی کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ دوسرے طریقوں سے بچ جانے والے بچوں کوبھی خوراک پلانے کے لئے ماحولیاتی مثبت نمونے معاون بن سکتے ہیں ۔

مذہبی اور علاقائی راہنماؤں کومتحرک کرنا

فروغِ صحت کی کوششوں اور ویکسین کی وسیع تر کوریج کے حصول میں برادری اور مذہبی رہنماؤں کا متحرک ہونا بہت اہم عْنصر ہے۔ علما بشمول امام مسجد اور مقامی رہنماء پولیو کے خاتمے کے پروگراموں میں لوگوں کی حوصلہ افزائی اور بھرپور شرکت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ قبائلی اور دیگر متاثرہ سرحدی علاقوں کے لوگ مذہبی جماعتوں سے بھی منسلک ہیں ۔یہ دوسرے صوبوں میں رہنے والے پاکستانیوں سے زیادہ قدامت پسند ہیں۔ مزید برآں ، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو مناسب طور پر تربیت اورمراعات دینے کی ضرورت ہے۔اِمام مسجد اور دوسرے مذہبی رہنما معاشرے میں آگاہی پھیلانے میں مدد کرسکتے ہیں کہ حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے ہی بچوں اور بڑوں کو پولیو سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے ، مذہبی رہنما غیر رسمی اور نچلی سطح پر ویکسین ڈپلومیسی کو عمل میں لا کر زیادہ تر لوگوں کو قائل کر سکتے ہیں اور اس لحاظ مددگار بن سکتے ہیں۔کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی CII نے پہلے ہی پولیو سے متعلق 100 سے زائد فتووں کی توثیق کردی ہے۔ 2014 میں سعودی عرب سے آئے ہوئے فتویٰ جات ، الازہر یونیورسٹی قاہرہ اور مولانا سمیع الحق (مرحوم) مہتمم دارالعلوم حقانیہ جیسی ممتاز مذہبی شخصیات نے پولیو کے قطرے پلانے کی حمایت کی ہے ، اور پولیو کے خاتمے کے پروگراموں کی بہتر تعمیل کو یقینی بنانے کے لئے ویکسی نیشن کے عمل میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنے کی تائید کی ہے۔

ملک بھر میں پولیو کے خاتمے کے لئے اہم اقدامات میں ایک یہ بھی ہے کہ پولیو ویکسین لگانے کے طریقہ کارکے متعلق منعقدہ اہم ورکشاپس کے ذریعے صحت کے عملے کی صلاحیت اور استعداد کو بڑھایا جائے۔ اس میں صحت لازمی ہے تا کہ مہمات کامیابی کے ساتھ چلائی جا سکیں۔سمارٹ فون کے ذریعے کی جانے والی نگرانی میں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ تجربہ کار ویکسنیڑز کی مراعات میں اضافہ کرنے سے براہ راست پولیو ویکسی نیشن کی کوریج میں بہتری آئی ہے۔انتظامی ڈھانچے کو منظم کرنا اور فعال بنانالازمی ہے۔سابقہ اور موجودہ حکومت کی طرف سے ایک منظم منصوبہ بندی ہمیشہ پہلی ترجیح رہی ہے لیکن بنیادی مسئلہ اس پر عمل درآمد کا ہے یہ معاملہ اکثر ہی اعلیٰ اداروں کی طرف سے عدم دلچسپی ، بدانتظامی ، نااہلی کی وجہ سے نظرانداز ہوتا رہا ہے۔ اسٹریٹجک فریم ورک کے نفاذ کے لیے بنیادی اقدامات میں خطرات اور خدشات کا جائزہ لینا شامل ہے۔ جس کی جانچ پڑتال کے لیے غیر اعلانیہ اور ہفتہ وار بنیادوں پر چیکنگ کی جانی چاہیے۔ اس طریقہ کار کو پانچ مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔

آبادی کی قوت مدافعت کے لیے اقدامات

مربوط نگرانی

وباء پھیلنے کے ممکنہ خطرات

روک تھام کی تیاریاں

ٹیکنالوجی کے ذریعے صحت کے مطلق مؤثر تشہیر اور لوگوں تک پہنچانا، ریڈیو پر بڑے پیمانے پر نشر ہونے والے مفادِ عامہ کے پروگرامز کے ذریعے پولیو ویکسی نیشن کے فوائد کے بارے میں مقامی لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہو سکتا ہے ، ریڈیو اور ڈیجیٹل دونوں طریقوں سے مذہبی رہنماؤں کی جانب سے ترغیبی یااعلانات کا نشر ہونا صحت کو فروغ دینے اور ویکسین سے آگاہی کے لیے ایک بہترین اوزار کے طور پر کام کرسکتے ہیں،مقامی آبادی کی ثقافت اور روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین کی طرف سے میڈیا کی حکمت عملیوں اور ان کے عمل درآمد پر توجہ نہ دینے کے سبب پولیو خاتمے کی مہم ناکام رہ جاتی ہے۔ اس معاملے کے لئے نشریاتی مواد کو اس طرح سے ترتیب دینا چاہیے جس سے مقامی لوگوں اور حکومت کے مابین پائے جانے والے تنازعات میں کمی واقع ہو سکے۔یہ دو طرفہ بات چیت کا عمل ہونا چاہیے جہاں لوگوں کے تحفظات کو بھی سنا اور ختم کیا جائے۔ اس طرح ہم آہنگی پیدا ہوگی جو پولیو کے خاتمے کی مہم کو زیادہ موثر بنانے کا باعث بنے گی۔ اس سلسلے میں جاری کردہ فتوؤں سے بھی مدد لی جائے اور پولیو سے ہونے والی معذوروںکی تعداد کوعوام کو آگاہ کیا جائے ۔ اس بات کی طرف توجہ دلوانا کہ پولیو وائرس کیسے کچھ مخصوص علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ لوگوں کے لئے وباء کی سنگینی اور شدت کو سمجھنے میں زیادہ مددگار نقطہ ثابت ہو سکتا ہے۔سرحدی علاقوں میں لوگ روایتی ذرائع ابلاغ مثلاً ٹیلی ویژن کی بجائے موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں۔ اِس صورتِ حال کے مطابق پولیو خاتمہ کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں ویکسی نیشن کی کوریج بڑھانے کے لئے (موبائل ہیلتھ) ایپ استعمال کررہی ہیں۔سال 2010 میں پاکستان نے موبائل ایس ایم ایس پر مبنی سروس کے ذریعے والدین کویہ سہولت دی کہ وہ حفاظتی ٹیکوں سے محروم رہ جانے والے بچوں کی نشاندہی کر سکیں۔

تحریر: سید عبداللہ